عطائیوں کے ظلم کی شکار بچی کے علاج کیلیے والدین کے پاس پیسے نہیں

Palwsha

Palwsha

کرک (جیوڈیسک) ضلع کرک میں عطائی ڈاکٹر کی نااہلی سے سننے اور بولنے سے محروم ہونے والی بچی پلوشہ تعلیم حاصل کرناچاہتی ہے مگر والدین کے پاس علاج معالجہ کے لئے پیسے ہیں نہ ہی علاقے میں خصوصی تعلیم کا انتظام ہے۔ ضلع کرک کے گاوٴں صابر آباد میں عبدالحمید 5 بچوں، بیوی اور بیوہ ماں پر مشتمل اس گھر کا سربراہ ہے۔ پلوشہ نامی 8 سالہ بیٹی پیدائش کے ایک سال بعد بیمار ہوئی اور بعدازاں بتدریج سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی۔

ماں کا کہنا ہے کہ ہر صبح جب باقی بچے اسکول جاتے ہیں تو پلوشہ بھی بہن، بھائیوں کے ساتھ جانے کو روتی ہے۔ جبکہ یہاں ایسے بچوں کی تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں۔ متاثرہ بچی کی والدہ کہتی ہیں کہ ایک سال کی تھی ہماری بیٹی جب سخت بیمار ہوئے تو ہم اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے، اچھا ڈاکٹر تھا نہیں، عطائی تھا اس نے علاج کیا اور ہماری بچی کا بیڑا غرق کر دیا۔پلوشہ کی دادی کا کہنا ہے کہ ہم اپنا تمام اثاثہ بیچ کر بھی علاج کی رقم پوری نہیں کرسکتے جبکہ لاہور کے ڈاکٹر نے ممکنہ علاج کے لیے خطیر رقم مانگی ہے۔

کراچی میں تین ماہ گزارے، اسلام آباد لے کرگئے، ایسی جگہ نہیں جہاں علاج کے لئے نہ گئے ہوں۔ پلوشہ کی بہن کہتی ہے کہ اس کے لئے ڈالر بہت مانگے ہیں، ہمارے بس میں نہیں ہے ہم اس کا علاج نہیں کر سکتے۔ قوت گویائی اور سماعت سے محروم پلوشہ انتہائی ذہین اور حساس ہے اس نے چند لمحوں میں جیو کے کیمرے سے اجنبیت کے سارے پردے اٹھا دئیے۔ موبائل فون استعمال کیا۔ اپنی دھن میں ناچی، کرکٹ کھیلی، اور گڑیا کی تصویر بھی بنا کر دکھائی۔ پلوشہ سننے اور بولنے کی محرومی سے نجات کے لیے دعا مانگنا بھولتی نہ اپنے کبوتروں کی دعا لینا۔

والدہ کہتی ہے کہ وضو کر کے اپنے لئے روتی ہے دعا کرتی ہے دوپٹہ سر پہ لے لیتی ہے۔ پلوشہ کے والدسی این جی کٹ فٹینگ کا کام کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ پلوشہ یہ تو جانتی ہے کہ اس کی محرومی کا علاج موجود ہےمگروہ ہماری بے بسی نہیں جانتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ بیٹی کی محرومی اور ہماری بے بسی کا خاتمہ کردے۔