تحریر : عبدالرزاق چوہدری پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے دو فائدے ہوے۔ ایک تو ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور دوسرا گلی گلی ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی دیکھنے کو ملا ۔ کہیں کہیں تو ایک آدھ لڈو کو بھی ہم نے اپنا منتظر پایا لیکن عجب صورتحال کا سامنا تھا یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر جیتا کون اورہارا کون ؟ جناب ہماری تو موج تھی دونوں جانب ہی سے لڈو اڑا رہے تھے۔ ایک جانب جاتے تولوگ لپک اٹھتے لڈو کھائیں جناب ہمارا شیر سرخرو ہوا ہے ۔ دوسری طرف جاتے تو کوئی جانی پہچانی آواز سماعتوں سے ٹکراتی لڈو کھائیں جناب کرپشن کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے ۔ہم تھوڑے کنفیوز تو ہوے لیکن جلد ہی دل کو سنبھال لیا کہ آخر ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے جو یہ قیاس کریں کون جیتا ہے اور کون ہارا ہے ۔ عوام ساری خوش ہے فیصلہ مثالی ہے بیس سال تک یاد رکھا جائے گا ۔ مزہ لیتے ہیں سب کے ساتھ رقص کرتے ہیں ۔ ویسے بھی ڈھول کی آواز ہماری کمزوری ہے اور یہ آواز سننے کو بھی کان ترس گئے تھے خوب ہلہ گلا کرتے ہیں۔ موقع بھی ہے اور دستور بھی ۔ پھر یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی دکان پر حسب منشا آرائش و زیبائش کر رہا تھا ۔ بس منظر یہاں تک تو خوشگوار رہا لیکن اچانک کہیں سے گہری سوچ کے بادل ذہن کے کینوس پر اترے اور منظر یک لخت بدل گیا ۔ دراصل ہم کسی سے پوچھ بیٹھے کہ جشن کیسا ہے ۔ جس سے پوچھا تھا اس نے پہلے تو ہمیں مشکوک نظروں سے گھورا اور پھر کہنے لگا شیر جیت گیا ہے جی ۔ کس سے جیتا ہے ؟ ہم نے تجسس بھرے انداز سے پوچھا۔ جواب ملا ۔ بلے سے جیت گیا ہے ۔ ہمارے لبوں پر ہلکی سی مسکان ابھری اور ساتھ ہی ذہن سوچ کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں چلا گیا۔
اب ساتھ ہی ہمکلامی کا دورہ بھی پڑ گیا ۔ ہم عوام بھی کیا چیز ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہے کونسی بات خوش ہونے والی ہے اور کونسی بات رونے والی ہے، ماتم کرنے والی ہے ۔ ہم تو بھیڑ بکریوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ جس نے چاہا اور جب چاہاطاقت کے زور پر کہیں بھی ہانک کر لے گیا۔ مزاحمت نہ حکم عدولی اور نہ ہی چہرے پر بیزاری کے اثرات۔ ہم تو اول درجے کے تابع فرمان ہیں ۔ ایسی قومیں تو ناپید ہیں ۔ لیڈر نے کہا ڈھول بجاو توڈھول پیٹ دیا ۔ لیڈرنے کہا بین کرو تو چوکڑی بھر کر پھوڑی پر بیٹھ گئے ویسے اس سیاسی پھوڑی کا جدید نام دھرنا ہے ۔ بڑا لیڈر اپنے سے چھوٹے کو حکم دیتا ہے جشن مناو، وہ اپنے سے چھوٹے کو فرمان جاری کرتا ہے کہ جشن کی تیاری کی جائے اور یوں ایسا کرتے کرتے آخر میں یہ تماشہ گلی محلہ کی سرداری اور غلامی تک پہنچ جاتا ہے ۔ گلی کا لیڈرجسے آپ کونسلر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کونسلر صاحب اپنے ورکر نما غلاموں کو بلاتا ہے انتظام ان کے ذمہ لگاتا ہے ۔ ورکر ڈھول کا بندوبست کرتے ہیں ۔ بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اس قدر شور شرابا ہوتا ہے کہ جیسے وطن عزیز نے کوئی جنگ جیت لی ہو۔
ایک شخص تو بہت ہی خوش دکھائی دیتا ہے ہر آتے جاتے کو یہ بتانا نہیں بھولتا کہ شیر نے بلے کو مات دے دی ہے ۔ وزارت عظمیٰ نے شیر کی کرسی کو ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹایا ۔ بس تھوڑا بہت ہلا جلا کر چھوڑ دیا ہے ۔ دن بھر یہی سلسہ رہا ۔ ڈھول بجتا رہا لوگ ناچتے رہے گاتے رہے بے خبر اس بات سے کہ پانا ماکیا ہے اور اس کا فیصلہ کیا ہے لیڈر کے کہنے پر پسینہ بہاتے رہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد احساس ہوا کہ یہ عجیب سی سوچیں اور خیال ہمیں کیوں ستا رہے ہیں ۔ جشن ہے گلی گلی ہو یا گھر گھر ہو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہم تو چلتے ہیں اپنے محبوب مشغلہ کی جانب مطلب گھومنا پھرنا اور پھر ایسا بھی محسوس ہوا جیسے کہ لاہور کی سڑکیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں کہ ابھی تک سرکار آئے کیوں نہیں ۔ رات کے بارہ بج چکے تھے ہماری گاڑی اپنا آخری چکر مین مارکیٹ گلبرگ میں لگا رہی تھی کہ ایک منظر دیکھ کرسارے دن کا جو مزہ لوٹا تھا غارت ہو گیا ۔ کوئی بیس بائیس کے قریب افراد نظر آئے جو فٹ پاتھ پر دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند میں تھے۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے ان لوگوں نے سارا دن پانا ما کیس میں ملنے والی کلین چٹ کی خوشی میں بے تحاشا رقص کیا ہو اور پھر تھک کر ،نڈھال ہو کر بے سدھ لیٹ گئے ہوں ۔ کسی سے پوچھنے پر معلوم ہوا یہ بے گھر افراد ہیں جن کے ساتھ بچے بھی ہیں جوان بچیاں بھی ہیں اور بوڑھی خواتین بھی ۔ جنوبی پنجاب کی جانب سے یہ قافلہ یہاں وارد ہوا ہے یہ سب لوگ سارا دن بھیک مانگتے رہتے ہیں اور جب رات ہوتی ہے تو مین مارکیٹ سے ملحقہ سڑکوں کے فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں ۔ ہمیں شدید دکھ ہوا کہ یہ لوگ جو اسی ملک کے باشندے ہیں اپنے ہی ملک میں دربدر ہیں اور پھر ایک ایسے شہر میں جس میں آج ہی مٹھائی پر اتنا خرچ ہوا ہے کہ اس رقم سے ان غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کے رہنے کا آسانی سے بندوبست ہو سکتا ہے ۔ اور پھر اس بات کا احساس ہوتے ہی افسردگی طاری ہو گئی کہ اگر کسی دن خادم نما منتظم کو ان کے یہاں اس طرح سونے پر غصہ آ گیا تو نہ جانے مار پیٹ کر کہاں ہانک دیئے جائیں گے۔
پھر ایسے لگا جیسے ہمارے کان میں کسی نے سرگوشی کی ہو کہ جناب یہ تو پاناما کیس کے تابوت کو کندھا دینے آئے ہیں مہمان ہیں تب تک یہاں رکیں گے جب تک پانا کا تابوت اپنی آخری منزل تک نہیں پہنچ جاتا ۔ حضور پھر رخصت ہو جائیں گے ۔ لیکن ہم اس سرگوشی کرنے والے کی بات سے قطعی مطمن نہیں ہوے اور ہماری چھٹی حس پھڑک پھڑک کر کہنے لگی کہ یہ قافلہ بھی پانا کیس کے تابوت کے ساتھ ہی دفن ہو گا۔