اسلام آباد (جیوڈیسک) پانامہ کیس بالآخر اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ جو شور مچاتے ہیں، مچاتے رہیں، اپنی اپنی قبروں میں جانا ہے، فیصلہ ضمیر اور قانون کے مطابق ہو گا، ایسا کیس نہیں کہ مختصر فیصلہ سنا دیں، تمام پہلوؤں اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ہی فیصلہ کریں گے کہ آئین اور قانون کو ہم سے کیا درکار ہے؟۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے دستخطوں والی دستاویزات کو شواہد کے بغیر کیسے درست تسلیم کر لیں، عدالت میں پیش کردہ کاغذ کا ٹکرا ثبوت نہیں ہو سکتا، آرٹیکل 184 تھری کے تحت ہم ٹرائل کورٹ نہیں، کیا قانون کے تقاضوں کو تبدیل کر دیں؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دونوں طرف سے پیش کیا گیا مواد طریقہ کار کے مطابق نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق شریف فیملی کی کوئی وضاحت آئی نہ قطر میں سرمایہ کاری سے متعلق بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دیا گیا۔
آخری روز عمران خان نے بھی اپنے وکلاء کی ہمنوائی کی۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ مقدمہ ملکی قیادت کی ایمانداری سے متعلق ہے، قیادت ایماندار نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پٹواری کرپشن اور کرکٹر میچ فکس نہ کرے۔ شیخ رشید نے کہا کہ شریف فیملی نے افسانہ بنایا مگر رنگ نہ بھر سکی، شریف خاندان ایک بھی عدالتی سوال کا جواب نہ دے سکا، قوم کو عدالت سے انصاف کی امید ہے۔
جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ آج کل انصاف پر مبنی فیصلہ اسے ہی کہا جاتا ہے جو حق میں آئے۔ سراج الحق نے جج صاحبان کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تمام متعلقہ اداروں نے دروازے بند کر دیئے تو سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی، ہم آپ کی عدالت میں ہیں اور آپ اللہ کی عدالت میں۔