تحریر : میر افسر امان دنیا میں رائج جمہوری حکومتوں سے پہلے جب بادشاہت کا نظام تھا تو بھی عدالتیں ملک و قوم کے مجموعی فاہدے کے لیے حکمرانوں کے خلاف انصاف کے فیصلے سناتیں رہی ہیں۔ کہیں کہیں وقت کے بادشاہوں کی طرف سے قاضییوں پر سختی بھی ہوتی تھی مگر مجموئی طور پر قاضییوں کو فیصلے سنانے کی کھلی اجازت ہوتی تھی۔ اسلامی دنیا میں امام ابو حنیفہ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے بادشاہ کے کہنے پر قاضی الاقضا دکا عہدہ یہ کہہ کر قبول نہیں کیا تھا کہ انہیں بادشاہ کی جائز ناجائز باتوں پر فیصلے دینے پڑتے۔بادشاہ کی بات نہ ماننے پر انہیں قید کر دیا گیا تھا اور قید کے دوران ہی ان کی موت واقع ہوئی تھی۔ آج اسلامی دنیا م کی تقریباً تین تہائی آبادی ان کی ہی حنفی فقہ پر عمل کرتی ہے۔ ایسے ہی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے بھی پاکستان کے قاضی الاقضاد کو اور دوسرے قاضییوں کو قید کر دیا تھا۔ پھر تحریک چلی اور اُسے ہار ماننی پڑھی۔اسلامی دور حکومت میں بادشاہوں کے خلاف انصاف پر مبنی تاریخ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ پھر دنیا میں جمہوری دور شروع ہوا۔ ملک کی آئین سازی کے لیے انتخابات کرائے گئے۔
پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ پالیمنٹ نے قانون سازی کی ۔ ملک کے لیے ایک آئین بنا۔ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کی تشریع کرنے کا اختیار سونپا گیا۔ عام شہریوںکے فرائض و حقوق کا تعین کیا گیا۔ حکمرانوں کو بھی آئین کا پابند کیا گیا۔ اس طرح سے حکومت کا انتظام چلنے لگا۔ مروجہ جمہوری نظام کی خالق مغربی دنیا ہے ۔ اس لیے ان کے ملکوں میں یہ نظام خوبی سے چل رہا ہے۔ حکمران کسی بھی الزام پر مورل گرائنڈ پر مستعفیٰ ہو جا تے ہیں۔ تیسری دنیا جس میں اسلامی ملک بھی شامل ہیں، کچھ میں اب بھی بادشاہی نظام چل رہا ہے۔کچھ میںلنگڑی لولی جمہورت چل رہی ہے۔ ان لنگڑی ملکوں میں ہم پاکستانی بھی شامل ہیں۔ تیسری دنیا کے کچھ حکومتوں پر فوجی طاقت کے زور پر قبضہ کر لیتے ہیںاورقاضیوں کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر غیر جانبدار قاضی ان فوجی حکومتوں سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔
کچھ قاضی ان کی مرضی کے فیصلے کرنے لگتے ہیں جیسے تازہ مثال مصر میں عدالتی فیصلوں کی ہے۔ ڈکٹیٹروں کی بات نہ ماننے والوں قاضییوں کی عوام میںعزت واحترام بڑھ جاتا ہے۔ہمارے ملک میں تین دفعہ ڈکٹیٹروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جمہوری حکومتوں کو ختم کیا اورہر ڈکٹیٹر نے تقریباً دس دس سال سے زیادہ ملک پر حکومت کی اور ملک کے حولی سولی کے مالک بن بیٹھے جس سے صحیح معنوں میں جمہویت پروان نہ چڑھ سکی ۔ اس دور میں قاضییوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے سنائے جس سے سیاست دان مطمن نہیں رہے اور بے لفظوں عدلیہ پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے اس سے بغیر دبائو کے فیصلہ کی امید ہے جس پر انشاء اللہ عدلیہ پوری اُترے گی۔آخری ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد پانچ سال پیپلز پارٹی نے جمہوری حکومت کی اور چار سال سے نوازمسلم لیگ حکومت کر رہی ہے۔جیسا کے اوپر بیان کیا گیا ہے کہ آئین میں عوام اور حکمرانوں کے حقوق اور فرائض درج کر یے گئے ہیں۔ اس لیے آئین کے تحت کسی کو بھی آئین سے انحراف کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
پاکستان کے ١٩٧٣ء کے آئین کے مطابق ملک کا حکمران آئین کی دفعہ ٦٢، ٦٣ کے مطابق امین و صادق ہونا چاہیے۔ پاکستان کے آئین کیا دنیا میں رائج ہر آئین میں حکمرانوں کو آئین امین و صادق ہونا شامل ہے۔ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی مکمل اصلاح نہیں ہو سکی۔ سیاست کو پیسے کمانے اور تجارت بنا دیا گیا ہے۔ کروڑ لگائو ارب کمائو والی صورت ہے۔اس سے قبل سیاست دانوں پر کرپشن کے مقدمے چلتے رہے۔ عدلیہ نے حکمرانوں کے سوئس اکائونٹ میں کرپشن کے پیسوں کے لیے وزیر اعظم کو خط لکھنے کا آڈر دیا مگر عدلیہ کا حکم نہیں مانا گیا۔ اسی سلسلے میں ان کے وزیر اعظم کو بھی منصب سے ہٹا دیا گیا۔بعد میں کرپشن کے ثبوث مٹا دیے گئے۔آخر کار نیپ نے یہ کہہ کر مقدمہ ختم کر دیا کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔موجودہ حکمران کے بچوں کے پاناما لیکس میں نام آیا۔ تو وزیر اعظم صاحب نے دو دفعہ میڈیا پر آکر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ ایک دفعہ پاریمنٹ میں بھی صفائی پیش کی۔ اے کاش کہ جمہوری نظام کی خاطر مورل گرائینڈپر استعفیٰ دے کر الزم کی کی شفاف تحقیقات کرواتے مگر ایسا نہیں کیا۔ عدالت کے حکم پر ٹی او آر وقت پر نہ بنا کر الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر تنگ آ کر کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی، تحریک انصاف اورعوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں کیس داہر کیا۔
سپرہم کورٹ نے روزانہ کے بنیاد پر اس مقدمے کو سنا اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔ صاحبو! سپریم کورٹ کے فیصلہ آنے سے پہلے ہی قیاس آرائیاں شروع کر دی گئیں۔ کوئی کہہ رہا اس فیصلے کے بعد پاکستان کی سیاست میں بھونچال آئے گا۔ سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا۔ کسی نے لاہور کے اندڑ ڈھیرے ڈالے رکھے اور کہا کہ اب ہم میدان میں آ گئے ہیں ۔ مفاہمت کے بادشاہ نے کہا کہ آیندہ وزیر اعظم میں بنائوں گا۔ پورے ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی بس پاناما کیس کا فیصلہ آجائے تو ہم اپنے آیندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ کسی کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی اورچہ مگوئیاں شروع ہو گئیں، انہوں نے بھی کہا کہ ملک میں تبدلی آنے والی ہے۔ پاناما کیس کا بس فیصلہ آنے ہی والا ہے۔
سب سے پہلے کرپشن شروع کرنے والی جماعت جس پر کبھی بھی کر پشن کاالزام نہیں لگا۔ کہتی ہے کہ فیصلہ کے بعد بھی ہماری کرپشن کے خلاف مہم ختم نہیں ہو گی۔ جب تک ملک کے اندر کرپشن کرنے والے سب کے خلاف مقدمات قائم نہیں ہوتے اور لوٹی ہوئی دولت عوام کے خزانے میں داخل نہیں کرواتے چین سے نہیں بیٹھے گے۔ صاحبو! کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے حکمران عوام کے خون پیسے کی کمائی لوٹ کر باہر ملکوں کے بنکوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ان کا اور کے بچوں کا علاج باہر ملکوں میں ہوتا ۔ عوام ہسپتالوں میں سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ ان کے لیے داوائیاں نہیں ہیں۔اس لیے پوری پاکستانی قوم کی نظریں پاناما کیس کے فیصلہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ ملک کی سپریم کورٹ پر عوام کو اعتماد ہے۔انشاء اللہ فیصلہ عوام کی تواقعات کے مطابق ہو گا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کے مصداق انصاف کا فیصلہ ہو گا۔ سب فریقوں کو عدالت کا فیصلہ ماننا پڑھے گا، عدالت نے فیصلہ سننے کے وقت ہی سب سے تحریر ی عہد لے لیا تھا۔ فیصلہ کسی کے حق میں کسی کے مخالف میں ہی ہوگا۔ اس لیے سب فریقوں کو اس کو من و عن ماننے کے علاوہ دوسراکوئی راستہ نہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار جلد ختم ہونے والا ہے۔ اس سے پاکستان میں کرپشن ختم ہو گی۔ اللہ ہمارے ملک کو کرپشن سے پاک کرے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان