لاہور (جیوڈیسک) پاناما کیس کی سماعت میں آنیوالا ٹھہراؤ حکمران جماعت کیلئے ریلیف ہے یا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ، حکمران جماعت کے مشیر، قائدین اور وزرا اپنے ورکرز کنونشن میں بالواسطہ طور پر عدالت میں اب تک کی کارروائی کو ٹارگٹ کرتے نظر آرہے ہیں۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ ووٹ نوازشریف لے اور فیصلے کوئی اور طاقتیں کریں ایسا نہیں ہو سکتا تاہم اس سیاسی بے چینی کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آرہا، اس میں دو رائے نہیں کہ مینڈیٹ نواز شریف کے پاس ہے اور ان کی حکومت کو کوئی سیاسی چیلنج بھی درپیش نظر نہیں آرہا تو پھر حکومتی ذمہ داران کیونکر ایسی صورتحال طاری کرنے پر مصر ہیں کہ جس سے اداروں کے درمیان تصادم کی سی کیفیت طاری ہو۔
حکومتیں اور حکمران تو ہمیشہ بحرانی کیفیت کا تدارک کرتے ہیں کیونکہ بحران حکومتوں کیلئے خطرناک ہوتے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ بحران اب حکومت کی اندرونی صفوں میں موجود ہے ،کیسا بحران یہ کچھ نہیں کہا جاسکتا، مگرصورتحال یہ ظاہر کررہی ہے کہ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج پاناماکیس کا ہی درپیش ہے جس کے باعث وہ ہر سطح پر جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہے ،تازہ جارحانہ حکمت عملی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو لگتا یہی ہے کہ وزیراعظم اورانکی قانونی ٹیم عدالت میں اپنا کیس پوری طرح مؤثر انداز میں پیش نہ کرسکے اور یہ کمی وہ عدالت کے بجائے سیاسی میدان میں پوری کررہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پاناماکیس سے نوازشریف، ان کے خاندان اورحکومت کی اخلاقی ساکھ ضرور جڑی ہے اور اسکے اثرات سیاست پربھی ہونگے ، یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت اور اسکے ذمہ داران پر صرف پاناما کیس کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ آنیوالے انتخابات کا بخار بھی سوار ہے اور وہ اپنا سیاسی کیس لیکر میدان میں اترے ہیں اورپانامالیکس پر اپنی صفائی دینے کے بجائے حکومتی کارکردگی بتاتے نظر آتے ہیں، مخالفین پر دھاڑتے ہوئے انکے الزامات کوترقی کا راستہ روکنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
جہاں تک مذکورہ صورتحال میں عمران خان اور ان کے سیاسی طرزعمل کا سوال ہے تو اُدھر بھی یہی کیفیت طاری ہے اور وہ پاناما کیس کے فیصلہ پربھی اپنی مستقبل کی سیاست اور آنیوالے انتخابات کا دارومدار سمجھتے ہیں،عمران خان اپنے قریبی ساتھیوں کو یہ اطمینان دلاتے نظر آرہے ہیں کہ پاناماکیس کا فیصلہ انکے سیاسی مخالفین کیخلاف ہوگا اور یہیں سے ہمیں نئی سیاسی سمت ملے گی جسے ہمیں کیش کرانا اور انتخابات میں میدان مارنا ہے لیکن عمران خان کی سیاست اور مشاورت پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران سیاسی معاملات میں ہمیشہ خوش گمان رہے ہیں جس سے انہیں ہمیشہ نقصان ہوا لہٰذا پاناماکیس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن اسلام آباد کے ذمہ دار حلقے اب یہ کہتے ضرور نظر آرہے ہیں کہ فیصلہ اتنا بڑا فیصلہ ضرور ہو گا کہ پاکستانی سیاست کا ایک رخ متعین ضرور ہو گا اور مستقبل میں کرپشن، لوٹ مار، بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں، منی لانڈرنگ اور مفادات کے تصادم کے راستہ پر جانیوالے سیاستدان ایسے کسی عمل سے پہلے سو مرتبہ سوچیں گے کیونکہ قانونی حلقے کھلے طور پر یہ کہتے نظر آنے لگے ہیں کہ پاناما کا فیصلہ خود آزاد عدلیہ کا بھی ایک بہت بڑا امتحان ہے اور اس امتحان کے نتیجہ میں پاکستان سرخرو بھی ہوسکتا ہے اور پاکستان کی سیاست کا بھی کوئی رنگ ڈھنگ بن سکتا ہے۔