اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد بینچ آج دوبارہ کیس کی سماعت کررہا ہے جس میں شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں جب کہ اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ مکمل تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہوگا۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی پاناما عملدرآمد بینچ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد آج کیس کی دوسری سماعت کررہا ہے جب کہ جسٹس شیخ عظمت اور جسٹس اعجاز الاحسن بینچ کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 13 سوالات پڑھ کر سنائے۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ حکم نامہ اس لیے سنایا کہ بتایاجائے جےآئی ٹی کوکس نوعیت کی تحقیقات سونپی گئیں، عدالت اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کر چکی ہے، سپریم کورٹ کے سوالات میں نواز شریف سے متعلق تحائف کاذکر تھا لیکن عدالت نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمےکو دوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط اور بیئرر سرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے، سپریم کورٹ نے جو سوالات پوچھے ان کے جواب مانگے گئے تھے۔
شریف خاندان کے وکیل کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا، کیا آپ کہناچاہتے ہیں کہ کسی پراپرٹی پر تحقیقات جے آئی ٹی کا دائرہ کارنہیں تھا؟ جسٹس اعجاز نے کہا کہ فیصلےمیں لکھاہے کہ ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اس کاجائزہ لیا جاسکتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا لیا جس پر جسٹس عظمت نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مزیدجائیدادوں کی نشاندہی جےآئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا؟
شریف خاندان کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کر لیے، جو مقدمات ختم ہو گئے تھے ان کی بھی جانچ پڑتال کی گئی، التوفیق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے، دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بہت سارے معاملات اس کیس میں 13سوالوں سے مطابقت رکھتے ہیں، معاملات جانچے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی، لندن پراپرٹی سے متعلق منی ٹریل ایک معمہ ہے، پیسا کہاں سے آیا اور فلیٹس کیسے خریدے گئے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت میں حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے ہونے والی تحقیقات کا 13سوالات سے کوئی تعلق نہیں تھا، جے آئی ٹی کو مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کا اختیار نہ تھا، 13 سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا سفارش کر دی، سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل بات تو منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گا، میری یادداشت کے مطابق لندن فلیٹس پہلے مقدمات کا بھی حصہ رہے ہیں، جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں پہلے عدالت کئی بار حکم جاری کر چکی ہے، ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہےیا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حدیبیہ کیس تحقیقات میں شامل کرنا درست ہے یا نہیں حتمی فیصلہ ٹرائل کورٹ کو کرناہے، رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دے دیں؟
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ جےآئی ٹی کو ایسےاختیارات نہیں دیئے تھےکہ حدیبیہ کیس کھولنےکی سفارش کی جاتی جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے صرف سفارشات پیش کیں، آرڈر عدالت نے جاری کرنا ہے، سب سوالوں کا جواب انکوائری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
خواجہ حارث کے دلائل میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ کہنا غلط ہے کہ موقع نہیں دیا گیا، آپ اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتے تھے کہہ سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا، کوئی کہتا ہے یاد نہیں، کوئی کہتا ہے اکاؤنٹنٹ کو پتا ہو گا، حقائق چھپائے گئے، جوابات نہیں دیئے گئے، وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دیا گیا، وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کی یہ اپروچ تھی کہ کچھ نہ بتایا جائے، گلف اسٹیل مل کےمالک کےسوال پر کہا شاید حسن مالک ہوگا، یہ اپروچ رہی جےآئی ٹی میں، کہا گیا جو معلوم ہو سکے وہ جے آئی ٹی خود ہی کرے۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن بھی لی اور اور سمجھ کر نوٹ بھی کر لی۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اگر تحقیقات کر کے سفارش کر دی تو کیا برا کیا؟ جے آئی ٹی سفارشات سے زیادہ عدالتی حکم اہم ہو گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا، عدالت چاہے تو معاملے پر از خود نوٹس لے سکتی تھی، عدالت ہر مقدمے کا رکارڈ منگوا کر الگ جائزہ لے، کسی بھی مقدمے کا 13سوالات سے کوئی تعلق نہیں، عدالت خود بھی اپنے حکم سے باہر نہیں جا سکتی،
جسٹس عظمت سعید کا خارجہ حارث کے دلائل پر کہنا تھا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، ہم نظر ثانی درخواست نہیں سن رہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے آمدن سے زائد ہوں تو بھی صفائی کا موقع ملتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں تو منی ٹریل اور ذرائع آمدن کا پہلے دن سے انتظار ہے اور یہی بات تو ہم ایک سال سے کر رہے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کے لیے دروازے بند نہیں کر رہے، آپ نے اپنے جواب میں کسی دستاویز کی تردید نہیں کی، آپ اپنا جواب ہمارے پاس دے دیں، آپ جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ وزیر اعظم نےہل میٹل کی آمدن سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کرنے کی تردید کی جب کہ جسٹس عظمت سعید کہنا تھا کہ ہل میٹل سے پیسے پاکستان کیسے آئے یہ بات آپ نے خود عدالت میں کہی تھی۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعظم نہ تو کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ کوئی تنخواہ وصول کی جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ الزام غلط ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جی ہاں یہ الزام غلط ہے، کاغذات بھی یہی کہتے ہیں، وزیراعظم ایف زیڈ ای کے مالک ہیں اور نہ ہی کبھی تنخواہ لی، ایف زیڈ ای کمپنی حسن نواز کی ملکیت ہے۔
جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ حسن نواز کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وزیراعظم حسن کے والد اور ایف زیڈ ای کے چیئرمین نہیں ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا وزیراعظم نے اقامہ نہیں لیا تھا؟ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جو باتیں جے آئی ٹی نے نہیں پوچھی تھیں وہ ہم نے پوچھ لیں، بات ختم۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں، وزیراعظم سے دستاویزات پر مؤقف نہیں لیا گیا، عدالت ایسی رپورٹ پر حکم جاری نہیں کرسکتی۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر آج بھی فریقین کے علاوہ دیگر اپوزیشن رہنما عدالت میں موجود ہیں جب کہ اس موقع پر آج بھی سپریم کورٹ کےاطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
گزشتہ سماعت پر شریف خاندان نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراض سپریم کورٹ میں جمع کرایا جس میں وزیراعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کو خفیہ رکھنا بدنیتی ہے اور یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ روز کی سماعت میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے وکلا سمیت شیخ رشید نے دلائل مکمل کرلیے تھے۔ شیخ رشید اور تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت سے وزیراعظم کو طلب کرکے ان سے جرح کرنے کی درخواست کی تھی۔
سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہمیں قانون کی حد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں یہ آپ نے بتانا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے مطابق شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔