اسلام آباد (جیوڈیسک) پانامالیکس کیس میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ کسی ایک شخص کا احتساب ہو رہا ہے، اگر ابتدا حاکم وقت سے کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ وزیراعظم پر الزامات کی سو فیصد تصدیق تک کسی انتہا پر نہیں جائیں گے۔ تنخواہیں لینے کیلئے ادارے بنائے گئے، کارکردگی کی بات آئے تو کہتے ہیں کہ اختیار نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے وزیراعظم کا خطاب سیاسی قراردیتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت کی دستاویزات میں سقم کی نشاندہی کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے خطاب میں غلط بیانی کی تو اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم پر اتنا بڑا الزام لگ گیا ہے، وکیلوں سے زیادہ محنت ججز بھی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پانامالیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت فوکس کر رہی ہے کہ اصل مقدمے کو چلایا جائے۔ عدالت کے سامنے ہر روز نئی متفرق درخواستیں آجاتی ہیں۔ متفرق درخواستیں مناسب وقت پر سنیں گے، روزانہ کی بنیاد پر ان درخواستوں کو نہیں سن سکتے، متفرق درخواستیں چلتی رہیں تو اصل کیس نہیں سن پائیں گے۔
درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پرویزمشرف، عمران خان، انور سیف اللہ کیخلاف کارروائی کرے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو کہیں سے تو کام شروع کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے استدعا کی ہے کہ معاملے نیب کو بھجوا دیا جائے۔ یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ کسی ایک شخص کا احتساب ہو رہا ہے۔ حاکم وقت تو ایک ہے، اگر ابتدا حاکم وقت سے کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کس نے کہہ دیا کہ باقی لوگوں کا احتساب نہیں ہو گا۔ عمران خان کی درخواست پر وزیراعظم کا احتساب ہو رہا ہے۔ باقی درخواستوں میں جن کے نام ہیں ان کا بھی احتساب ہو گا۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نیب نے ابھی تک عدالت کو کوئی رپورٹ نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔ نیب نے کہا ہے کہ ان کا اختیار ہی نہیں ہے، تنخواہیں لینے کیلئے ادارے بنائے گئے ہیں، کارکردگی دکھانے کی بات آتی ہے تو ادارے کہتے ہیں ان کا اختیار نہیں۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 3اپریل 2016 کو پاناماپیپرز کا انکشاف ہوا۔
وزیراعظم اور ان کے بچوں کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا۔ پاناماپیپرز میں نام آنے پر آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا۔ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا وزیراعظم کے خطاب کی ریکارڈنگ دستیاب ہے؟ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم کے خطاب کی ریکارڈنگ دستیاب ہے اور خطاب کا متن بھی عدالت کو دے چکے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں اتفاق فاؤنڈری قومیا لی گئی، اتفاق فاؤنڈری 1979 میں واپس ملی، 1989 میں بحری جہاز سے سامان نہ اتارنے دیا گیا۔ 1999 میں ملک بدر کر دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ کی سٹیل مل فروخت کی تو حسن اور حسین نے اپنے کاروبار میں وہ اثاثے استعمال کئے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں لندن کے اپارٹمنٹس اور دبئی سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے بچوں کو کاروبار کیلئے سرمایہ جدہ مل فروخت کر کے دیا۔ جسٹس اصف سعید نے کہا کہ وزیراعظم نے خطاب میں نہیں کہا کہ مل فروخت کر کے فلیٹس لندن میں خریدے۔
وزیراعظم نے خطاب میں کہا جدہ سٹیل مل کے پیسوں سے بچوں نے کام شروع کیا۔ حامد خان نے بتایا کہ 22 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے دوبارہ خطاب کیا اور میرے عزیز ہم وطنو سے خطاب شروع کیا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ کیا خطاب کا آغاز میرے عزیز ہم وطنو سے نہیں ہوتا؟ جسٹس آصف سعید کے ریمارکس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔ حامد خان نے کہا کہ میرے عزیز ہم وطنو تو فوجی آمر استعمال کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے خطاب میں اعلان کیا کہ الزامات درست ثابت ہوئے تو گھر چلے جائیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی کمٹمنٹ اپنے آپ سے تھی، آپ کے ساتھ نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پانامالیکس پر الزامات 22سال پرانے ہیں، کیا اس حوالے سے کسی ادارے نے تحقیقات کی تھیں؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز اور طیارہ سازش کیس کے علاوہ کون سے مقدمات ہیں، حامد خان نے کہا کہ یہ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دستاویزات عدالت پیش کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تقریر پڑھ رہے ہیں، اس کا کیا فائدہ۔ وزیراعظم کے بیان سے تسلی ہو جاتی تو آپ یہاں نہ کھڑے ہوتے۔
حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں خود کو احتساب کیلئے پیش کیا، جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ وزیراعظم کا خطاب سیاسی تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے خطاب میں غلط بیانی کی تو اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ وزیراعظم نے پہلے بیان مین اثاثوں کی وضاحت پیش کی، وزیراعظم کا دوسرا بیان سیاسی لگتا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے مئی میں قومی اسمبلی میں خطاب کیا، اپوزیشن اور حکومت میں ٹی او آرز کے معاملات طے نہ پا سکے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹی اوآرز بنے یا نہیں اس کا نتیجہ صفر نکلا۔ حامد خان نے کہا کہ قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم نے والد کی دبئی سٹیل مل کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے کہا دبئی سٹیل مل 35.37 ملین درہم میں فروخت ہوئی۔ وزیراعظم نے خطاب میں 1999 کی جلاوطنی کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے خطاب میں کہا جدہ کی فیکٹری 17 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن میں جائیدادیں خریدیں، ایک نیا پہلو اس تقریر میں آیا ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آگے پڑھیں گے تو نیا پہلو آئے گا، 45 منٹ تک اس تقریر کو پڑھنے کی کیا ضرورت تھی، براہ راست اسی بات پر آجاتے۔ ہمارے پاس یہ معاملہ نہیں کہ وزیراعظم نے 1981 میں کتنا ٹیکس دیا، کیا وزیراعظم کے بیان پر ہم فیصلہ اخذ کر سکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی شخص کی پوری زندگی کی پڑتال نہیں کرنی، ٹیکس کے معاملات ہمارے لئے غیرمتعلق ہیں، عدالت کے سامنے جو مقدمہ ہے اس پر فوکس کریں۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا کہ لندن کے فلیٹ بلیک منی سے خریدے گئے، وزیراعظم پر الزامات کی سو فیصد تصدیق ہونے تک ہم کسی انتہا پر نہیں جائیں گے۔ الزامات کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس ثبوت لانا ہوں گے۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے نہیں بتایا کہ جدہ سٹیل مل کب قائم کی، وزیراعظم نے اتنا بتایا کہ جون 2005 میں جدہ سٹیل مل فروخت کی گئی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کسی بھی فیکٹری یا جائیداد کیلئے ایک پیسہ بھی باہر نہیں گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بچے بیرون ملک کاروبار کرتے ہیں، بچے کہاں کاروبار کرتے ہیں اور کیا کاروبار کرتے ہیں نہیں پتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتفاق فاؤنڈری کھنڈر کی صورت میں واپس ملی، اتفاق فاؤنڈری کی ترقی کیلئے دوبارہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ پچھلے اڑھائی گھنٹے سے آپ عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ان الزامات کی مکمل تحقیقات تک کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ کسی شخص کی سیاسی اور نجی زندگی کو نہیں کھول سکتے۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم کے بیانات میں تضاد موجود ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دستاویزات سے بتائیں کہ بیانات میں کیا تضاد ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ حسین نوازنے تسلیم کیا ہے کہ وہ نیلسن اور نیسکول کے بینیفیشل مالک ہیں، دبئی کی سٹیل مل سے 12ملین درہم شریف خاندان کو ملا، شریف خاندان نے وہ رقم قطر کے ریئل سٹیٹ بزنس میں لگائی۔
حکمران جماعت کا مقدمہ مان لیتے ہیں تو عمران خان کا کیس فارغ ہو جاتا ہے، کیا کوئی ایسی دستاویز موجود ہے جس میں ذکر ہو کہ یہ جائیدادیں کتنے میں خریدیں۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ یہ چیزیں بھی آگئیں کہ لندن کے اپارٹمنٹس سے تعلق کب بنا۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ الثانی خاندان نے تعلقات کی بنیاد پر اپارٹمنٹ کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم پر اتنا بڑا الزام لگ گیا ہے، وکیلوں سے زیادہ محنت ججز بھی کر رہے ہیں، چاہتے ہیں جو الزام لگایا گیا اس کا جلد فیصلہ ہو۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آف شور کمپنی کا سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے، جس کے پاس سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے وہ کمپنی کا مالک ہوتا ہے۔ حکمران جماعت کی دستاویزات کا جائزہ لیں۔
کوئی سوال اٹھتا ہے تو اعتراض کریں، ایسی تقریروں سے آپ کا کیس نہیں بنے گا۔ حامد خان نے کہا کہ برطانیہ کی عدالت سے التوفیق کیس کا فیصلہ آچکا ہے، جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جن کے خلاف کیس تھا وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ التوفیق کیس کے فریقین شریف خاندان کا حصہ ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یہ دیکھیں کہ لندن کے اپارٹمنٹس 1999 میں کس کے نام تھے، حامد خان نے کہا کہ یہ جائیدادیں قطر کے سابق وزیراعظم کے نام نہیں تھیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لندن کی رجسٹری میں ماضی کے مالکان کا نام بھی درج ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ کی عدالت میں کیس میں میاں شریف، عباس شریف اور شہبازشریف کا نام شامل تھا۔ نوازشریف، حسن اور حسین کا نام اس کیس میں شامل نہیں تھا، ان کا تعلق آپ دوسرے کے ساتھ کیسے جوڑتے ہیں۔
ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ 1999 میں نیلسن اور نیسکول کس کی ملکیت تھی، ظفرعلی شاہ کیس میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ظفرعلی شاہ کیس پر انحصار کرنا ہے تو فُل کورٹ بنانا پڑے گی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے حامد خان سے کہا کہ حکمران جماعت کی دستاویزات میں سقم کی نشاندہی کریں، نوازشریف کی تقریروں میں دفاع اپنی جگہ لیکن ہم نے عدالت میں دفاع دیکھنا ہے، ہمیں مطمئن کر دیں تو ہم کہیں گے کہ گھر جائیں اور آرام کریں۔ آپ نے عدالت کے بجائے قوم سے خطاب شروع کر دیا ہے، جس طرح مقدمہ چلا رہے ہیں اس طرح 2099 آجائے گا، کیس کی مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔