اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد کیس کی تیسری سماعت جاری ہے جس میں دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی پاناما عملدرآمد بینچ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد آج کیس کی تیسری سماعت کر رہا ہے۔ جس میں وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسحاق ڈار کے وکیل دلائل دے رہے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کے آغاز وزیراعظم کا جے آئی ٹی کو دیا گیا بیان بھی پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ڈکلیئرڈ اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں، وزیراعظم نے گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات دیں، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، وزیراعظم سے کسی اثاثے کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا اور جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے رشتے داروں نے کوئی جائیداد چھپائی اور نہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد ہے جب کہ نیب قوانین کے مطابق شوہر یا والدکو بیوی بچوں کےنام اثاثوں کاذمہ دارنہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
خواجہ حارث نے دلائل کے دوران نیب سیکشن کی شق 5 اے کا حوالہ بھی دیا۔
وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو جب کہ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیر استعمال ہونے کا ہے، مہینوں سےسن رہے ہیں، فلیٹ ملکیت کےعلاوہ ساری چیزیں واضح ہیں۔
جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، زیر استعمال ہونا اور بات ہے، اثاثے سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے، کیاآپ کہنا چاہ رہےہیں دوسرےکے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی اور قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کاکوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خودکسی پراپرٹی کے مالک ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ جےآئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں اور لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا جب کہ ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں کہ وزیراعظم لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے خواجہ حارث سے استفسار کیا، سوال یہ تھاکہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈ کہاں سے آئے،کہاں گئے؟ وزیراعظم نےکہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے، وزیراعظم نے یہ جواب نہیں دیا پراپرٹی کب خریدی اور فنڈ کہاں سے آئے۔
اس کے جواب میں خواجہ حارث نے مؤقف دیا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کے ایما پر کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ جسٹس عظمت نے خواجہ حارث کے دلائل پر کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت نیب قانون میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا تھا آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، جے آئی ٹی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم کا کوئی بے نامی دار ہے جب کہ کوئی اور دستاویز، گواہ نہیں کہ نوازشریف کےفلیٹ بے نامی دارکے زیر استعمال رہے۔
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ لندن فلیٹس کاجے آئی ٹی نےنہیں کہا اس کے اصل مالک وزیراعظم ہیں لیکن نام کسی اورکے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فنڈز سعودی عرب، دبئی یا قطر میں تھے، سوال یہ ہے کہ فنڈر کیسےلندن پہنچے، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے کب اور کس نےادائیگی کی؟
خواجہ حارث نے بتایاکہ جےآئی ٹی نے کہا فلیٹ پورے خاندان کے ہیں جس پر جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا ان کے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے، عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیے جارہے، نیلسن اور نیسکول سےمتعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینیفشل مالک ہیں، باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوئی جس پر خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق پوچھا تھا، وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی تاہم تفصیلات کا علم نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سےمتعلق نتائج بھی اخذ کیے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج اخذ کیےہیں۔ جسٹس اعجاز نے جواب دیاکہ رپورٹ کی جلد نمبر 4 میں کافی خطرناک دستاویزات موجود ہیں، میرا اشارہ ٹرسٹ ڈیڈ سےمتعلق ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میاں شریف ہی اپنی زندگی میں تمام معاملات سنبھالتے تھے، جے آئی ٹی نے کہا کس کو کتنا شیئر ملنا ہے، فیصلہ میاں شریف کا تھا، وزیراعظم کے 2 بچے حدیبیہ ملز میں حصہ دار تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی، وزیراعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں، وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاؤں گا کہ کہاں سے فلیٹ لیے۔
جسٹس اعجاز کے ریمارکس پر خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں، جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج اخذ کیے، کیا وزیراعظم ان اثاثوں کے لیے جواب دہ ہیں جو ان کے ہیں ہی نہیں، وزیراعظم کے بچے 1995 تک ان کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف سرانجام دیتے تھے ، بچے1995 تک زیرکفالت تھے، صرف اس عرصے کا وزیراعظم سے پوچھا جاسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے کہا کہ وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں، یہ فرض کرلیں کہ یہ میاں شریف کےہیں تو کچھ شیئر تو نواز شریف کا بھی ہو گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم کہناچاہتے ہیں ایسی کوئی دستاویز نہیں کہ نواز شریف فلیٹس کے مالک ہیں، ٹریجڈی یہ ہے کہ کون مالک ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں، اگر مالک کاپتاچل جائے تو یہ سوال آتاہےکہ خریداری کے لیے پیسا کہاں سے آیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ فلیٹس کا اصل مالک کون ہے؟ فلیٹس کی دستاویزات ہی موجود نہیں۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ پراپرٹی کاجھگڑا ہو تودیکھا جاتا ہے کہ وہ کس کے نام ہے، فائدہ کون اٹھا رہا ہے، آپ کی بات سمجھتے ہیں جےآئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پرکرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رائے دستاویزات پر منحصر ہے یا نہیں جس پر خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ وزیر اعظم ان جائیدادوں اور رقم کے جوابدہ ہیں جو صرف ان کے نام ہے، وزیر اعظم 1990 میں کاروبار سے الگ ہوچکے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ التوفیق کیس میں لندن عدالت میں شیزی نقوی کے بیان حلفی موجود ہیں، بیٹوں کےپاس ایسےکاغذات ہیں جس سےنوازشریف کا فلیٹس سے تعلق ظاہر نہ ہوتا ہو؟
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیر اعظم لندن فلیٹس کے مالک نہیں ہیں جس پر جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو کاغذات آئے ہیں ان میں مریم بینیفشل اونر ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا یہ بات سمجھتےہیں کہ جےآئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پرعہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ رکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، یہ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے کہ کیس ہم سنیں یااحتساب عدالت کوبھجوائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فلیٹس کی ملکیت چھپانےکے لیے تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پوچھ پوچھ کر تھک گئے کون مالک ہے کوئی نہیں بتاتا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بتایا تو ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے جس کے کیس کی سماعت میں تھوڑی دیر کا وقفہ لیا گیا۔
آج بھی سماعت کے موقع پر فریقین سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنما، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید سمیت دیگر اپوزیشن رہنما سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں جن کے آج دلائل دیئے جانے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دینا تھا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا۔
عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ جمع کرانے کے بعد 17 جولائی سے جاری کیس کی سماعت میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے وکیل سمیت شیخ رشید بھی اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے مطابق شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔