تحریر : ممتاز حیدر پانامہ کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد حلقہ این اے 120 میں ضمنی انتخابات سترہ ستمبر کو ہونے ہیں۔مسلم لیگ نے نااہل وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز کو میدان میں اتارا ہے۔تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد ،پیپلز پارٹی کے فیصل میر،جماعت اسلامی کے ضیا الدین انصاری جبکہ آزاد امیدوراوں میں سے محمد یعقوب شیخ سمیت چالیس کے قریب امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔سواتین لاکھ کے قریب اس حلقے کا ووٹ ہے جبکہ پچیس یونین کونسلز ہیں۔2013کے الیکشن میں نواز شریف اس حلقے سے جیتے تھے ۔ا ب ضمنی انتخاب کے لئے سرگرمیاں عروج پر پہنچی ہوئی ہیں۔
کلثوم نواز بیماری کے باعث لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کا ”علاج” ہو رہا ہے۔سپریم کو رٹ سے نااہل ہونے والے نواز شریف بھی لندن میںہیں جو وہاں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے اور پاکستانی پرچم جلانے والی جماعت کے لیڈروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔حمزہ شہباز بھی لندن میں ہیں۔کلثوم نواز کی انتخابی مہم ان کی بیٹی مریم نوازچلا رہی ہے۔2013میں نواز شریف کی الیکشن مہم اس حلقے میں مریم نے ہی چلائی تھی۔اب راتوں کو دو دوبجے بھی مریم ماں کی بیماری کا واسطہ دے کر حلقے سے ووٹ مانگ رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔نواز شریف نے اس حلقے سے جیتنے کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالی لیکن یہاں کے لوگوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔بدقسمتی سے میری رہائش بھی اسی حلقے میں ہے۔گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ،گرمیوں میں نہانے کے لئے پانی نہیں ملتا تو سردیوں میں کھانا پکانے کو گیس نہیں ملتی۔بچے بغیر ناشتے کے سکو ل جاتے ہیں۔گھروں میں سپلائی کا جو پانی آتا ہے وہ اکثر بدبودار اور گندہ ہوتا ہے۔صاف پانی پروجیکٹ کے نام پر کروڑو ں لگا دیئے گئے لیکن نواز شریف کے حلقے کے باسی گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔صفائی نام کی چیز نہیں۔گٹر ابل رہے ہوتے ہیں لیکن بلدیہ والے اس وقت تک نہیں آتے جب تک ان کی جیب گرم نہ کی جائے۔ان حالات میں اس حلقے کے لوگ 2013میں نواز شریف کو ووٹ دے کر پچھتا رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے نااہلی کے فیصلے کو بھی عوام دیکھ رہی ہے۔
نواز شریف کا پنڈی سے لاہور مارچ اور اداروں پر طنز بھی قوم کے سامنے ہے۔لندن میں پاکستان مخالف جماعت کے رہنمائوں سے ملاقاتیں،رائیونڈ میں پاکستان کے ازلی دشمن،کشمیریوں کے قاتل،سانحہ احمد آبادگجرات کے مجرم نریندر مودی کی آمد اور اجیت ڈوول کی نواز شریف سے مری میں ملاقاتیں،کشمیریوں کی سوا سالہ تحریک میں زبانی بیان کے علاوہ عملی مدد کے لئے کوشش نہ کرنے ،علماء کرام کی گرفتاریاں،لائوڈ سپیکر پر پابندیاں اور سانحہ ماڈل ٹائو ن جس میں بے گناہ لوگوں کا خون کیا گیا یہ سب وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ن لیگ کا ووٹ اب ن کا نہیں رہا بلکہ دیگر امیدواروں کی طرف جا رہا ہے۔اگرچہ ن لیگ اقتدار میں ہونے کی وجہ سے لالچ ،دھونس،دھمکی کاحربہ اب بھی اس حلقے میں استعمال کر رہی ہے۔ووٹرز خریدے جا رہے ہیں۔نوکریوں کے دروازے اس حلقے والوں کے لئے کھول دیئے گئے۔اپنی گلی سے بیس ووٹ لانے پر مریم نواز سے ملاقات اور سرکاری نوکری کی آفریں نوجوانوں کو دی گئیں لیکن نوجوان بھی کسی جھانسے میں نہیں آرہے بلکہ سب آفریں ٹھکرا کر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔وزرا ء انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔سڑکوں اور گلیوں کو پختہ و مرمت کا کام دن دیہاڑے کیا جا رہا ہے لیکن الیکشن کمیشن کسی قسم کا نوٹس نہیں لے رہا۔حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس کے ذریعے ووٹرز کو ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔گورنر ہائوس جہاں ایک ہزار ووٹ ہے اسکے دروازے باقی امیدواروں کے لئے بند کر دیئے گئے ہیں۔پختون برادری کے 29ہزار سے زائد اس حلقے کے ووٹ بلاک کر دیئے گئے جبکہ لاہور شہر کے دیگر علاقوں سے ووٹرز کو یہاں منتقل کیا گیا۔ہزاروں ایسے ووٹ درج ہیں جنکی رہائش ماڈل ٹائون،گلبرگ،جوہر ٹائون سمیت دیگر علاقوں میں ہے لیکن ان کا ووٹ این اے ایک سو بیس میں ہے اسی طرح ہزاروں لوگ جو اس حلقے کے رہائشی ہیں ان کے ووٹ دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ن لیگ نے دھاندلی کے قبل از وقت انتظامات تو کر لیے لیکن اب اس حلقے میں شکست یقینی ہو چکی ہے۔
شریف خاندان کا علاج کے بہانے ملک سے فرار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ملک میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں بنوا سکے جہاں علاج کروا سکیں۔یہ صرف پاکستانیوں پر حکمرانی کرنے آتے ہیں ان کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں،پاکستان میں کوئی ایسا سکول نہیںجہاں یہ پڑھ سکیں ،انکے کاروبار بیرون ممالک میں ہیں۔قوم کا پیسہ لوٹ مار کے ذریعے بیرون ممالک بھیج کر محل خریدے گئے لیکن قوم کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔میٹرو،اورنج ٹرین نہیں یہاں کی عوام روٹی چاہتی ہے۔صحت کی سہولیات یہاں کی عوام کا حق ہے لیکن نہیں دیئے جا رہے۔مفت دوائیوں کے اعلانات کرنے والے خود لندن پہنچ جاتے ہیں اور غریب کا بیٹا،غریب کی ماں سرکاری ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتی ہے اسے دوا میسر نہیں ہوتی۔اب الیکشن میں عوام انہیں مسترد کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور فیصلہ سترہ ستمبر کی شام کو ہو جائے گا ۔
این اے120میں تحریک انصاف کی یاسمین راشد بھی بھرپور مہم چلارہی ہیں۔عمران خان نے مزنگ میں جلسہ بھی کیا۔آزاد امیدوار محمد یعقوب شیخ کی انتخابی مہم بھی عروج پر ہے ۔پورے حلقہ میں یونین کونسل،وارڈ کی سطح پر الیکشن آفسز کھول دیئے گئے ہیں۔ڈور ٹو ڈورمہم میں یعقوب شیخ کے سپورٹرز نکل رہے ہیں۔محمد یعقوب شیخ ام القریٰ یونیورسٹی ریاض سے گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔وہ آزاد امیدوار ہیں اور انہیں سات اگست کو بننے والی سیاسی پارٹی ملی مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد ہیں جو ایک عالم باعمل ہیں۔قرآن مجید کی تفسیر انہوں نے لکھی۔وہ بھی محمد یعقوب شیخ کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے بھی کونسل میں شامل جماعتوں کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ محمد یعقوب شیخ کے انتخابی نشان انرجی سیور پر مہر لگائیں ۔سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان بھی ان کی حمایت کر چکے ہیں اور جموں کشمیر کے این اے120میں مقیم رائے دہندگان سے اپیل کی ہے کہ وہ انرجی سیور پر مہر لگائیں کیونکہ یعقوب شیخ تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل ہیں۔انہوں نے کشمیریوں کی مدد کے لئے دعوے نہیں عملی اقدامات کئے۔کشمیر کے اندوہناک زلزلہ میں انہوں نے جموں کشمیر کے عوام کی بے لوث خدمت کی۔حلقے کی ہندو برادری بھی ان کی حمایت کر چکی ہے۔جماعت اہلحدیث،جمعیت اہلحدیث،متحدہ جمعیت اہلحدیث کے رہنما بھی انتخابی مہم میں یعقوب شیخ کے شانہ بشانہ ہیں۔انکا کہنا ہے کہ وہ ایک نظریئے کی بنیاد پر میدان میں آئے ہیں۔قوم کو کرپشن سے نجات ،بے روزگاری کا خاتمہ،سودی قرضوں سے نجات ،مہنگائی،بدامنی،فرقہ واریت کا خاتمہ اور خدمت کی سیاست کریں گے۔قوم انکا ماضی دیکھ چکی ہے۔اس حلقے کے باسیوں کے سامنے ان کا ماضی ایک کھلی کتاب ہے۔انہوں نے ہر قدرتی آفت میں سب سے پہلے پہنچ کر مدد کی اور خدمت کا فریضہ سرانجام دیا۔
تھر پارکر میں ہندو بستیوں میں پانی کے کنویں بنوائے۔بلوچستان کے وہ علاقے جہاں پاکستان کا پرچم لہرانے والے کو گولی مار دی جاتی تھی وہاں خدمت کا کام کیا جس کے نتیجے میں آج بلوچستان کے چپے چپے پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔یعقوب شیخ این اے ایک سو بیس کے عوام سے بھی وعدہ کر رہے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اسی حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گا۔انکے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاںکی عوام انہیں ووٹ دینے کے لئے تیار ہے اور سترہ ستمبر کو ان کی کامیابی یقینی ہے۔ن لیگ این اے120میں تحریک انصاف سے اتنی خوفزدہ نہیں جتنی یعقوب شیخ کی انتخابی مہم سے ہے ،انکے الیکشن میں آنے کے بعد فلاح انسانیت فائونڈیشن کے لاہور بھر میں ایمبولینس بوتھ کو ختم کر دیا گیا جبکہ پولیس سرکاری ہسپتالوں میں لگائے گئے فری دسترخوانوں سے برتن تک اٹھا کر لے گئی۔ووٹرز کو ہراساں کرنے کیلیے بھی پنجاب پولیس متحرک ہے لیکن اس بار ن لیگ جو بھی کر لے شکست لکھی جا چکی ہے۔سترہ ستمبر کو محب وطن ہی کامیاب ہوں گے۔پاکستان مخالف جماعتوں سے ملنے والے،مودی کوگھر بلانے والے اور کشمیریوں کی تحریک سے بے وفائی کرنے والے نہیں جیت سکیں گے۔عوام نے ابھی سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔