تحریر: روشن خٹک جہاں بیٹھیں، بس ایک ہی مو ضوع ہے ، پانامہ کیس کا کیا فیصلہ آئیگا ؟ وزیر اعظم نواز شریف رہے گا یا چلتا کیا جائے گا ؟جس کو قانون کے الف ب کا پتہ نہیں، وہ بھی اس مو ضوع پر کھل کر اظہارِ خیال کرتا ہے اور جو قانون سے واقف ہے وہ بھی اپنے پیشین گوئی کو درست تصور کرتا ہے گویا ہر کوئی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق دور کی کوڑی لانے میں مصروف ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔معزز جج صاحبان کے منہ سے نکلے ہو ئے ایک ایک لفظ کی الگ الگ تعبیر و تشریح اپنے من میں چھپے خواہش کی بنیاد پر کی جا رہی ہے ۔مگر سچی بات یہ ہے کہ کسی کو یہ پتہ نہیں کہ پانامہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔البتہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا کچھ ہو نے والا ہے؟ آشیانہ اقتدار اور دّرِ مخالف سے جو دھواں نکل رہا ہے ، اس سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ کچھ تو ہے ،جس کی پردہ داری ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جس محنت اور شب و روز عرق ریزی سے چھپے رازوں کو طشت از بام کیا ہے ،وہ اپنی جگہ قابلِ تحسین ہے مگر قانون کی آنکھ سے اسے ملاحظہ کیا جائے، تو اس کی اصلیّت و حقیقت کا اندازہ اب سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ مگر عوام کی نظروں میں اب وہ دھندلا پن باقی نہیں رہا جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بننے سے پہلے موجود تھا جس کی بناء پر سپریم کورٹ کی تین جج صاحبان نے مزید تفتیش کی ضرورت سمجھی تھی۔ اب معاملہ صاف ہو چکا ہے۔اگر ان تین جج صاحبان میں سے ایک جج بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے اخذ کردہ نتائج سے متفق ہو جائے تو وزیر اعظم محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔اور اس کے خلاف مزید ایکشن لینے کی ذمہ داری نیب یا سپریم کورٹ کے کسی بنچ کو حوالہ کی جاسکتی ہے۔بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔
وزیراعظم کو نا اہل قرار دے کر اس کے خلاف مزید انکوائری یا فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام اٹھایا جائے گا ۔مگر ایسا ہونا ضروری اس لئے نہیں کہ جج صاحبان کی نظریں ملک کے مستقبل اور ان کے فیصلہ کے نتئجہ میں رونما ہونے والے نتائج پر بھی مرکوز ہو تی ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کسی فیصلے سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو پھر وہ قانون کی چھڑی میں موجود Flexibility کو بروئے کار لاتے ہیں۔ویسے ایک بات واضح ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہوں یا نہ ہوں، شریف ہو یا نہ ہو، مگر قسمت اس کی بڑی اچھی ہے اور بقول رحمان بابا ،، اللہ تعالیٰ سے اچھے بخت یعنی خوش قسمتی کی دعا کرنی چا ہیے کیونکہ عقل مند لوگ بخت آور یعنی خوش قسمت لوگوں کے غلام ہو تے ہیں۔
با ایں وجہ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ جناب وزیرا عظم کے پا س عقل نہیں مگر اچھی قسمت ضرور ہے لہذا عین ممکن ہے کہ پانامہ کیس میں وہ با عزت بّری ہو جائے، نہ صرف بری ہو جائے بلکہ آئیندہ انتخابات میں پنجاب سے پھر اس طرح جیت جائے کہ مرکز میں حکومت بھی بنا لے۔ بحر ھال یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہو گا ۔ لیکن بظاہر وہ قانون کے شکنجہ میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے ٹکر لینا ان کے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک خاص مقصد کے تحت مشترکہ تحقیقا تی ٹیم بنائی تھی۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تحقیقات کر کے نواز شریف اور اس کے خاندان کے جائز و نا جائز اثاثوں ، منی ٹریل وغیرہ کے بارے میں سیاہ و سفید کا پتہ لگائے۔اب وہ مرحلہ گزر گیا ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ جس کے مطابق نواز شریف اکثر و بیشتر جھوٹ کا سہارا لیتے رہے ہیں۔
اب سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کے رپورٹ کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں یا اسے رّد کر کے کو ئی اور ایسی راہ نکالتے ہیں جس میں بمصداقِ پشتو محاورہ ” سیخ سوے نہ کباب سوے ” یعنی سیخ بھی سلامت رہے اور کباب بھی نہ جلے۔۔جسے عام لفظوں میں درمیانہ راستہ کہتے ہیں۔ لہذا ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ایسا درمیانہ راستہ اختیار کیا جائے گا ۔جس کے رو سے نواز شریف کو سزا دی جائیگی نہ نااہل کیا جائے گا ،مگر چھوڑا بھی نہ جائے گا۔ جس طرح اس سے قبل پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہو ئے ( جے آئی ٹی کی تشکیل پر) دونوں فریقین نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، اس مرتبہ بھی اسی قسم کے فیصلے کا امکان ہے ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک تمام پاکستانیوں کو اس اہم کیس کے فیصلے کا بڑے بے چینی سے انتظار ہے اب دیکھئے ! کہ پانامہ کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔