تحریر : رشید احمد نعیم جب سے ”پنامہ کا ہنگامہ” شروع ہوا ہے ہمیں اپنے وزراء کے دلچسپ بیانات پڑھنے کو مل رہے ہیں اور جیسے جیسے پنامہ کیس میں تیزی آ رہی ہے ویسے ویسے ہمارے وزراء کی ” زبان مقدس” فن ِقصیدہ گوئی کے گوہر دکھانے میں مصروف عمل ہے۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ وزراء جب میڈیا ، ٹاک شوز اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے” خوبصورت تاویلیں” تراشتے ہیں تو انسان کو اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے ان کرم فرمائوں کے ہوتے ہوے کسی کامڈین چینل کو ٹیون کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ان کی گفتگو سن کر ایک مشہور واقعہ خود بخود ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ ایک بادشاہ کے دور میں کسی فاحشہ عورت نے چار جگہ باقاعدہ شادیاں رچا رکھی تھیں۔ ایک سے خرچہ پانی لیتی، کچھ وقت گزارتی اور پھر میکے جانے کے بہانے دوسری جگہ مال بٹورنے پہنچ جاتی، کچھ دن یا ہفتے وہاں رہتی اور پھر وہاں سے دوسرے خاوند کے پاس جا پہنچتی، یہی طریقہ واردات اختیار کرتے ہوئے تیسرے اور چوتھے خاوند کی جیب خالی کرنے کے لیے ان کے پاس چلی جاتی۔ ایک مدت تک وہ اسی طرح مبینہ چاروں خاوندوں سے مال وزر بٹورتی رہی مگر آخر کب تک؟؟ بات نکلتے نکلتے سرکاری دربار تک جا پہنچی۔ تصدیق کیلئے اُسکو عدالت میں طلب کیا گیا۔
مذکورہ بادشاہ کی سلطنت میں قانون ِاسلام نافذ تھا اس لئے زیادہ امکان یہی تھا کہ جب بات ثابت ہو جائے گی تو اِس عورت کا سزا سے بچ جانا مشکل ہو گا۔ اُس نے ایک ” بڑے” وکیل سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا” محترمہ آپ کی جان تو بچ جائے گی مگر آپ کو بھاری فیس ادا کرنا ہوگی” عورت نے کہا”تم فیس کی پرواہ نہ کرو، جان ہے تو جہان ہے۔ آزاد و زندہ رہی تو پھر بھی کما لونگی”! لہٰذا اس عورت نے سارا زیور اور تمام جمع پونچی لا کر اُس وکیل کو دے دی۔ وکیل نے کہا عدالت میں یوں کہنا کہ” میں جمعے کے روز جامع مسجد کے پاس سے گزر رہی تھی، تو خطیب صاحب کہہ رہے تھے کہ اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں۔چلتے چلتے میں بس اتنی بات ہی سن سکی تھی، تب میں نے اسلام کے اس حکم پر عمل کا ارادہ کر لیا اور پھر عمل کر ڈالا۔ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے تھا، عورتوں کے لئے نہیں۔! عدالت نے اس مقدمے کا کیا فیصلہ سنایا ہو گا یہ تو الگ بات ہے مگر لگتا ہے کہ ہمارے وزراء نے چلتے چلتے بات سن کر اس پر عمل کرنے کا عظیم گُر اسی واقعہ سے سیکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بوقت بات چیت ان کی گفتگو میں ادھورا پن پایا جاتا ہے اور ان کی قابلیت و اہلیت دیکھ کر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ وطن ِ عزیز کو کیسے کیسے وزراء کا تحفہ دیا گیا ہے؟۔ جب وہ ”ہر دل عزیز”وزیراعظم میاں نواز شریف کی شان میں” حمد وثنائ” کا ورد کر رہے ہوتے ہیں تو بے اختیار آنکھوں کے سامنے” میاں مٹھو”کا پیارا سا چہرہ نظر آنے لگتا ہے۔جی ہاں!” میاں مٹھو”۔۔ میرا مطلب ہے طوطا۔ ٍطوطا ایک انتہائی خوبصورت پرندہ ہے۔ آنکھوں کو بہت بھلا لگتا ہے ۔کافی لوگوں نے اپنے گھروں میں طوطے پال رکھے ہیں۔ پنجروں میں بند یہ طوطے ہر وہ بات دہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو انہیں رٹا دی جاتی ہے اور ان کے یہ رٹے رٹائے چند جملے ہی لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ لوگوں میں ان طوطوں کی پسندیدگی و مقبولیت سے متاثر ہو کرہمارے کچھ وزراء نے بھی سرکاری طوطوں کا روپ اختیار کر رکھا ہے مگر ان قدرتی اور گھر یلوں طوطوں کے مقابلے میں سرکاری طو طوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔
Musaddiq Malik and Danyal Aziz
یہ بیچارے ذاتی مفادات کی خاطر انسان ہوتے ہوئے بھی ایک پرندے کا روپ دھارنے پر مجبو ر ہیں یہ جسمانی طور پر آزاد رہ کر بھی ذھنی طور پر پنجرے میں بند ہوتے ہیں۔ حالانکہ انسان ہو کر طوطے کی ذمہ داریاں نبھانا کوئی آسان کام نہیں مگر حکمرانوں کے قرب کے حصول کی خاطر ایساکرنے پر مجبور ہیں۔لالچ ،مفاد پرستی اور خود غرضی کی آگ نے ان کی یا د داشت اور صلاحیتوں کو بھسم کرڈالا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا اشرف المخلوق ہونا بھی بھول چکے ہیں حکمرانوں کے قصیدے گاگا کر ان کی حا لت یہ ہو چکی ہے کہ اڑتے طوطے کو دیکھتے ہی ان میں اپنا ئیت کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے البتہ انہیں اس کنفیو ژن کا سا منا ہے کہ یہ اڑتے طوطوں میں سے ہیں یا کہ چلتے پھرتے انسانوں میںسے ہیں۔یہی شک ان دونوں نسلوں میں دوریوں کا سبب ہے۔ یہ سرکاری طوطے اپنی ذمہ داریاں کس طرح نبھارہے ہیں ان کی ایک جھلک روزانہ اخبارات اور ٹی وی سکرین پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ptvہمیشہ سے ان سر کاری طوطوں کا مسکن چلا آ رہا ہے ۔جو ان سر کا ری طوطوں کو پرمو ٹ کر نے کا سب سے بڑاذریعہ ہے ۔نیز ptvنے ہر حکمران کے گیت گانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ptv کا خبر نا مہ آ ج جبر نا مہ بن چکا ہے ۔جہاں دن بھر صدر، وزیر اعظم ،وزرااور دوسرے اہم حکو متی عہدیداران کی تقاریر اور تصاویر دکھا کر قو م کو نا کر دہ گنا ہوں کی سزا دی جا تی ہے ۔اب تو خیر نجی نیوز چینلز بھی ان کی جلوہ افروزئی کا سبب بن رہے ہیں۔
ہاں تو بات چل رہی تھی سر کاری طوطوں کی جن کی اپنی کو ئی سوچ نہیں ہو تی انہوں نے اپنی خو شی و مسرت اپنے ما لک کی پسند اور نا پسندسے مشروط کر رکھی ہے ۔ نیز اپنے جذ با ت،خیا لات،احساسات اور مقا صدِ حیات کو اپنے ما لک و مر بی کی مر ضی و منشا ء کے مطا بق ڈ ھا ل رکھا ہے ۔ یہ صر ف وہی بو لی بو لتے ہیں جو ان کے آ قا ء کو پسند ہو تی ہے ۔ اگر وز یر اعظم میاں نو از شر یف را ت کو یہ فر ما دیںکہ جمہو ریت کے استحکا م اور وطن عزیز کے مفاد میں پی پی پی کو قو می دھارے میں رہتے ہو ئے اپنا کا م جا ری رکھنا چا ہیے تو پرویزرشید،عا بد شیرعلی، طلال چو ہدری، را نا ثنا ء اللہ، خو اجہ آ صف،دانیال عزیزخو اجہ سعد رفیق ، اورزعیم قا دری پر مشتمل سر کاری طوطوں کا غول نہا رمنہ t.v سکرین پر جلوہ افروز و نمو دا رہو کر بیا ن با زی شروع کر دیںگے کہ پی پی پی ایک سیا سی جمہوری جما عت ہے۔ استحکام ِ جموریت کے لیے پی پی پی کی گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پی پی پی کی جڑیں عوام میں ہیں جس سے انکا رممکن نہیںہے اس کو عو امی مینڈ یٹ حاصل ہے۔
عوامی مینڈیٹ کا احترام حکومتِ وقت پر فر ض ہے ۔ اور اگر بلاول بھٹو کی تقر یر کے بعد چھو ٹے میاں یہ فر ما دیں کہ بلاول کی تقریر نفرت انگیز اور قو می سلا متی کے منا فی تھی۔ اس سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے تو یہ سیا سی و سر کاری طوطے فو را ًاپنا پینترا بدل لیتے ہیں اور پی پی پی کے قا ئد ین میں کیڑے نکالنا شروع کر تے ہوئے انہیں جمہوریت دشمن سر گر میوںمیں ملوث ہونے کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ ان سرکاری طوطوں کو ان کے خلاف کرپشن کی داستانیں یاد آنے لگتی ہیں اور پھر اپنے قا ئد کے تیو ر د یکھ کر یہ سر کا ری طو طے پورے زورو شور سے پی پی پی پر الزام تر اشی اور طعنہ زنی کے نشتر چلا نے میں مصر وف ہو جاتے ہیں توکبھی اپنے رہنما کی اند رو نی خو ف زدہ کیفیات کو بھا نپتے ہو ئے نواز زر دا ری بھا ئی بھا ئی کی آ وا زیں بلند کر تے ہو ئے مفا ہمت کی سیا ست کو ہی پا کستا ن کے استحکا م کا حل بتا نے لگتے ہیں چو نکہ سر کا ری طو طے اپنی حما قتوںکی وجہ سے اللہ تعا لیٰ کی عطا کر دہ قو تِ سما عت، قو تِ بصیرت اور قوتِ بصا رت سے محر وم ہو چکے ہو تے ہیں۔
Imran Khan
یہ اپنے قائدین کی آنکھوں کے اشار وں،چہرے پر نمو دار ہو نے وا لی کیفیا ت اور دل میں جنم لنے وا لی خو اشا ت کے مطا بق اور بدلتی ہو ئی صو رت حا ل کے پیش نظر اپنے آ پ کوڈھا ل لیتے ہیں ۔ اور انہی کیفیات و خو اہشا ت کے مطا بق بو لی بو لتے ہیں پر ند ے اللہ تعا لی کی حسین تخلیق اور خو بصو رت مخلو ق ہیں خد ا ئے بز ر گ و بر تر کی حمدو ثنا کر تے ہو ئے بہت اچھے لگتے ہیں انہیں دیکھ کر دل کوایک لطیف سا سکون ،آ نکھو ں کو ٹھنڈ ک اور رو ح کو تسکین ملتی ہے ۔ مگر ان سر کاری طوطوں کی حا لتِ زار پر تر س آ تا ہے ۔ جو انسان ہو کر تو ہینِ انسا نیت کا ار نقا ب بڑے فخر وغرور سے کر تے ہیں زمینی حقا ئق کے بر عکس اپنے آ قا کی قصیدہ گوئی کر تے ہو ئے ان کو ذرا بھر احساسِ ندا مت نہیں ہو تا البتہ ان کے الفا ظ اور چہرے کے تا ثر ا ت کا تضاد ہر کو ئی محسوس کر رہا ہو تا ہے ۔ گز شتہ حکمر انوں کے سر کا ری طو طے انتہا ئی عا جزی اور انکسا ری سے جی حضور ی کر تے تھے مگر مو جو دہ حکمر انو ں کے کر پٹ سر کاری طوطے اپنے آ قا ئوں کی خو شنو دی حا صل کر نے کے لیے انسانی ، اخلا قی اور معا شر تی اقدا رکا جنازہ تک نکا ل دیتے ہیںآج کل یہ وزراء ان تمام افراد ، نجی چینلز اور اخبارات جو ان کی جھوٹی و بے وزن باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ہاں میں ہاں نہیں ملاتے کے بارے جو زبان استعمال کرتے ہیں لگتا ہے کہ یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر ان کا یقین اُٹھ چکا ہے۔
دانیال عزیز،پر ویز رشید ( ویسے اب تو قربانی کے بعد وہ کہیں حجرے میں چلہ کاٹنے میں مصروف ہیں)، خو اجہ سعد رفیق، طلال چو ہدری ،خو اجہ آ صف ،رانا ثنا اللہ ،زعیم قا دری اور کی سیاسی زندگی کی ڈ کشنری میں شا ید شرم و حیا کا لفظ ہی مو جو د نہیںہے ۔اگر انہیں کبھی تشو یش ہو تی ہے ۔تو صر ف اس خد شے پر کہ ان کا سو یا ہو ا ضمیر کہیں جا گ نہ جا ئے یہ بیچا رے اپنے آ قا ئو ں کے سا منے منہ بند رکھنے اور مخا لفین کے خلا ف منہ کھلا رکھنے پر مجبو ر ہیں اور اپنی تما م تر صلا حتیں اپنے نا اہل اور کر پٹ حکمرا نو ں کے جر ا ئم پر پر دہ پو شی کر تے ہو ئے ان کو ار سطو ،حا تم طا ئی ، مغل شہزا دے اور سکندرِاعظم یا نیک و پارسا ثا بت کر نے میں صر ف کر دیتے ہیں اور ان حکمر انو ںکی نا کا میوں اورنا اہلیوں پر بھی انہیں با ور کروانے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں کہ اگر آ پ یہ حما قتیں نہ فر ما تے تو شا ید ملک کسی بڑے حا دثے سے دوچا رہو جاتا ۔اے سر کا ری طو طو!خدا کا خوف کر تے ہو ئے ملک و قوم پر تر س کھا ئو قبل اس کے دھر لیے جاٍئوکیونکہ ایک نظام آپ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور ایک نظام قدرت کا ہے۔
درباری و سرکاری طوطو ! یہ واقعہ پڑھیے شاہد آپ اس سے کوئی عبرت حاصل کر سکیںایک مجذوب درویش بارش کے پانی میں عشق و مستی سے لبریز چلا جارہا تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم دودھ اُبال رہا تھا تُو موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم جلیبیاں تیار کررہا تھا ۔مجذوب کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا ۔شائد بھوک کا احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔ مجذوب حلوائی کی بھٹی کو بڑے غور سے دیکھنے لَگا مجذوب کُچھ کھانا چاہتا تھا لیکن مجذوب کی جیب ہی نہیں تھی تو پیسے بھلا کہاں ہوتے؟۔ مَجذوب چند لمحے بھٹی سے ہاتھ سینکنے کے بعد چَلا ہی چاہتا تھا کہ نیک دِل حَلوائی سے رَہا نہ گیا اور ایک پیالہ گرما گرم دودھ اور چند جلیبیاں مَجذوب کو پیش کردِیں مَجذوب نے گرما گَرم جلیبیاں گَرما گرم دودھ کیساتھ نُوش کی اور پھر ہاتھوں کو اُوپر کی جانب اُٹھا کر حَلوائی کو دُعا دیتا ہُوا آگے چَل دِیا۔ مَجذوب کا پیٹ بھر چُکا تھا دُنیا کے غموں سے بے پروا ہ وہ پھر اِک نئے جُوش سے بارش کے گدلے پانی کے چھینٹے اُڑاتا چلا جارہا تھا۔ وہ اِس بات سے بے خبر تھا کہ ایک نوجوان نو بیاہتا جُوڑا بھی بارِش کے پانی سے بَچتا بچاتا اُسکے پیچھے چَلا آ رھا ہے یکبارگی اُس مَجذوب نے بارش کے گَدلے پانی میں اِس زور سے لات رَسید کی کہ پانی اُڑتا ہُوا سیدھا پیچھے آنے والی نوجوان عورت کے کَپڑوں کو بِھگو گیا اُس نازنین کاقیمتی لِباس کیچڑ سے لَت پَت ہُوگیا تھا ۔اُسکے ساتھی نوجوان سے یہ بات برداشت نہیں ہُوئی۔ لِہذا وہ آستین چَڑھا کر آگے بَڑھا اور اُس مَجذوب کو گریبان سے پَکڑ کر کہنے لگا کیا اندھا ہے؟ تُجھے نظر نہیں آتا؟ تیری حَرکت کی وجہ سے میری مِحبوبہ کے کَپڑے گیلے ہوچُکے ہیں اور کیچڑ سے بھر چُکے ہیں۔ مَجذوب ہکا بَکا سا کھڑا تھا جبکہ اُس نوجوان کو مَجذوب کا خاموش رِہنا گِراں گُزر رہا تھا۔ عورت نے آگے بڑھ کر نوجوان کے ہاتھوں سے مَجذوب کو چھڑوانا بھی چاہا لیکن نوجوان کی آنکھوں سے نِکلتی نفرت کی چنگاری دیکھ کر وہ بھی دوبارہ پیچھے کھسکنے پر مجبور ہو گئی۔
Saad Rafique
راہ چلتے راہ گیر بھی بے حِسی سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے لیکن نوجوان کے غُصے کو دیکھ کر کِسی میں بھی ہِمت نہ ہُوئی کہ اُسے رُوک پاتے اور بلاآخر طاقت کے نشے سے چُور اُس نوجوان نے ایک زور دار تھپڑ مَجذوب کے چہرے پر جَڑ دِیا بوڑھا مَجذوب تھپڑ کی تاب نہ لاسکا اور لڑکھڑاتا ہُوا کیچڑ میں جا پڑا نوجوان نے جب مَجذوب کو نیچے گِرتا دِیکھا تُو مُسکراتے ہُوئے وہاں سے چَل دیا۔ بوڑھے مَجذوب نے آسمان کی جانب نِگاہ اُٹھائی اور اُس کے لَب سے نِکلا واہ میرے مالک! کبھی گَرما گَرم دودھ جلیبیوں کیساتھ اور کبھی گَرما گَرم تھپڑ، مگر جِس میں تُو راضی مجھے بھی وہی پسند ہے، یہ کہتا ہُوا مَجذوب ایک بار پھر اپنے راستے پر چَل دِیا۔ دوسری جانب وہ نوجوان جُوڑا جوانی کی مَستی سے سرشار اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ تھوڑی ہی دور چَلنے کے بعد وہ دونوں ایک مکان کے سامنے پُہنچ کر رُک گئے۔ وہ نوجوان اپنی جیب سے چابیاں نِکال کر اپنی محبوبہ سے ہنسی مذاق کرتے ہُوئے بالا خَانے کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا۔ بارش کے سبب سیڑھیوں پر پھلسن ہو گئی تھی اچانک اُس نوجوان کا پائوں پھسل گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گِرنے لَگا۔ عورت زور زور سے شور مچا کر لوگوں کو اپنے مِحبوب کی جانب متوجہ کرنے لگی جسکی وجہ سے کافی لوگ فوراً مدد کے واسطے نوجوان کی جانب لَپکے لیکن دیر ہو چُکی تھی نوجوان کا سَر پھٹ چُکا تھا اور بُہت زیادہ خُون بِہہ جانے کی وجہ سے اُس کڑیل نوجوان کی موت واقع ہو چُکی تھی۔ کُچھ لوگوں نے دور سے آتے مَجذوب کو دِیکھا تُو آپس میں چہ میگویئاں ہُونے لگیں کہ ضرور اِس مجذوب نے تھپڑ کھا کر نوجوان کیلئے بَددُعا کی ہے ورنہ ایسے کڑیل نوجوان کا صرف سیڑھیوں سے گر کر مرجانا بڑے اَچھنبے کی بات لگتی ہے۔
چند منچلے نوجوانوں نے یہ بات سُن کر مَجذوب کو گھیر لیا۔ ایک نوجوان کہنے لگا کہ آپ کیسے اللہ والے ہیں جو صِرف ایک تھپڑ کی وجہ سے نوجوان کیلئے بَددُعا کر بیٹھے۔ یہ اللہ والوں کی روِش ہَر گز نہیں کہ ذرا سی تکلیف پر بھی صبر نہ کر سکیں۔ وہ مَجذوب کہنے لگا خُدا کی قسم میں نے اِس نوجوان کیلئے ہرگِز بَددُعا نہیں کی! تبھی ان لوگوں سے میں سے کوئی پُکارا ۔اگر آپ نے بَددُعا نہیں کی تُو ایسا کڑیل نوجوان سیڑھیوں سے گِر کر کیسے ہلاک ہو گیا؟ تب اُس مَجذوب نے حاضرین سے ایک انوکھا سوال کیا کہ کوئی اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ موجود ہے؟ ایک نوجوان نے آگے بَڑھ کر کہا، ہاں میں اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ ہُوں۔ مَجذوب نے اَگلا سوال کیا،میرے قدموں سے جو کیچڑ اُچھلی تھی کیا اُس نے اِس نوجوان کے کپڑوں کو داغدار کیا تھا؟ وہی نوجوان بُولا نہیں۔لیکن عورت کے کَپڑے ضرور خَراب ہُوئے تھے۔
مَجذوب نے نوجوان کی بانہوں کو تھامتے ہُوئے پوچھا، پھر اِس نوجوان نے مجھے کیوں مارا؟ نوجوان کہنے لگا، کیوں کہ وہ نوجوان اِس عورت کا محبوب تھا اور اُس سے یہ برداشت نہیں ہُوا کہ کوئی اُسکے مِحبوب کے کپڑوں کو گَندہ کرے اسلئے اپنی معشوقہ کی جانب سے اُس نوجوان نے آپکو مارا۔ نوجوان کی بات سُن کر مجذوب نے ایک نعرہ ِمستانہ بُلند کیا اور یہ کہتا ہُوا وہاں سے رُخصت ہُوگیاکہ پس خُدا کی قسم! میں نے بَددُعا ہرگز نہیں کی تھی لیکن کوئی ہے جو مجھ سے مُحبت رکھتا ہے اور وہ اِتنا طاقتور ہے کہ دُنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُسکے سامنے بے بس ہے ۔ اگر آپ نواز شریف کی محبت میں جھوٹ بول کر مہنگائی و بے روزگاری کی پتھریلی بارش سے عوام الناس کا جینا حرام کریں گے اور انہیں زخموں سے چور کریں گے تو یاد رکھیں ایک ذات ِ اقدس ایسی بھی ہے جسے اپنی مخلوق سے بے پناہ پیار ہے اور اس رب ِ کائنات کی پکڑ بہت شدید ہے بہتر ہے کہ اس کی پکڑ میں آنے سے پہلے ہی اپنا قبلہ درست کر لیں۔