تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پانامہ کا قصہ تمام ہونے کو ہے اور مورخہ 20 اپریل دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ فیصلہ سنائے گی قانونی طور پر جو کا غذات ثبوت ہائے کے طور پر درخواست گزاروں نے ساتھ لف کیے ہیںان کی انکوائری کے لیے کمیشن ہی بنے گاجو اس سارے قصے کی تکمیل کر سکے گا۔فوراً کوئی ایسا فیصلہ جس سے نواز شریف کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوجائے ممکن ہی نہ ہے۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا یہ کہنا کہ وہ ایسا فیصلہ سنائیں گے جو صدیوں تک یاد کیا جاتا رہے گا اس لیے فیصلہ کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اور مکمل گھڑ گھڑا کر تیارکیا گیاہے اسی لیے اس میں دیر ہورہی تھی کہ اس میں صدیوں تک یاد رکھنے والی باتیں بھی ڈونڈھ ڈونڈھ کر شامل کی جا رہی تھیں اب اس فیصلہ کی منتظر رہ کر قوم خاصی چڑ چڑی ہوتی جارہی ہے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے ہزاروں من مٹھائیوں کے آرڈر دونوں طرف بک کیے جاچکے ہیں دن ہو ا یا رات کسی ایک فریق کو خوب سڑکوں پر دھمال ڈالنے کا موقع فراہم ہو سکتا ہے بحرحال جج صاحبان کے فرمان دلپذیر کے مطا بق تو فیصلہ بحر حال مجرموں کے خلاف ہو گااس فیصلہ کے وزن میں کمی بیشی ضرور ہو سکتی ہے کہ قلاوہ مجرموں کی گردنوں پر پورا فٹ ہو گا یا ڈھیلا ڈھالارہ جائے گا۔
اگر مجرموں کی جان خلاصی ہی کر ڈالی گئی تو پھر اس میں یاد رکھنے والی کونسی بات رہ جائے گی شریف خاندان کے خلاف یہ فیصلہ ہوا تبھی صدیوں تک یاد رکھنے والی یہ بات ہوگی کہ عدالتوں نے مقتدر اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد کیخلاف فیصلہ سنا کر قوم کے حوصلوں کو جلا بخش ڈالی ہے اس طرح تاریخی فیصلہ سے ایک اور مثال بن جائے گی اور عاصمہ جیلانی کیس کی طرح ہر فیصلہ میں اسے درج کرناآنے والے ججز صاحبان فخر محسوس کیا کریں گے وگرنہ مارشل لاء کے نفاذکو جائز قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے آج تک سوہان ِروح بنے ہوئے ہیں اور ہر دور کے لوگوں نے انہیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے ہی دیکھا ہے اور ہماری اعلیٰ عدالتوں کے ماتھے پرایسے سیاہ داغ ہیں جو اب دھلائے ہوئے بھی نہیں دھل سکتے کاش میاں صاحبان کے خاندان نے یہ منی لانڈرنگ نہ کی ہوتی اور وہ اپنی بھاری رقوم کا ماخذ بھی بتا دیتے صرف قطری خط اس کی وضاحت نہیں کرتاکہ میاں صاحب اور ان کی اولادوں نے مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل کسی اشارے کنائیے بیان یاقومی اسمبلی کے فلور پر تقریر میں اس کا ذکر کر دیا ہوتا تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اب فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو اور عوام کی نظروں میں اور ہر چوک میں عام گفتگو کے دوران میاں خاندان بحر حال مجرم سمجھا جاتا رہے گا کہ پہلے بھی ایک فیکٹری سے مزید 38فیکٹریاں بن جانے والا محیر العقول عمل اور کھربوں روپیہ بیرون ملک بھجوا ڈالنا پاکستانی عوام کو کھٹکتا رہتا ہے اور سروں پر ہتھوڑے مارتا ہے کہ اتنی دولت اور وہ بھی دو سال کے اندر جمع کرلینا کسی ذی شعور فرد کی عقل تسلیم نہیں کرتی۔اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ صرف اور صرف حکومتی چھتری کے تلے سرکاری خزانہ کو ہی براہ راست نقب لگاکر لوٹنے کے علاوہ قطعاًممکن ہی نہ ہے اگر اب فیصلہ میاں صاحب کے حق میں بھی آجائے تو بھی یہ داغ دھل نہیں سکتا کہ یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مستقبل میں بھی بولتا رہے گا۔
زرداری صاحب تو بیرون ملک مال متال سمیٹ کر بھاگ لیے تھے اس لیے ان کے دور کی کرپشنوں کے قصے کچھ ٹھنڈے ہوگئے ہیں مگر اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے تو نہیں مگر دھواں کچھ کچھ اٹھتا رہتا ہے دو نوں وزرائے اعظم گیلانی اور راجہ صاحب کی اربوں ڈالروںکی” کمائیاں “شاید مدفون ہی رہیں گی کہ برسر اقتدار افراد کے خلاف احتساب کرنے پر تو نیب جیسے خود مختار ادارہ کے بھی خواہ مخواہ ہی پائوں جلنا شروع ہوجاتے ہیں زرداری صاحب سرے محل ،وکی لیکس اور سوئس اکائونٹس میں موجود اربوں روپے مکمل ایسے ہضم کرچکے جیسے لکڑ ہضم پتھر ہضم والا محاورہ ہے بہاماس لیکس میںچار سو سے زائد افراد کی طرف سے کھربوںڈالر بیرون ملک بھجوانے والا سارا معاملہ بھی ابھی اٹھایا ہی نہیں جاسکا کہ ساری قوم بچے بوڑھے بالخصوص نوجوان پانامہ لیکس کے فیصلوں کے منتظر ہیں” الا نتظار اشد الامن الموت”کی طرح کہ انتظار کی تکلیف موت کی تکلیف سے زیادہ ہوتی ہے قوم بس اس کیس میں ملوث مقتدر شخصیات کی وجہ سے ہی ہے وگرنہ شاید اس سے بڑ ے بڑے مجرموں کا خصوصاً ملک توڑنے والوں کا کسی کو یاد بھی نہیں رہتا ۔اب عزیر بلوچ کی گرفتاری پر نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔
کراچی بلاول ہائوس کے ارد گرد سینکڑوں عمارات کو خالی کروانا اور آقائوں کے حکم پر سینکروں افراد کی قتل و غارت گری کرنا چھوٹے الزامات نہ ہیں مگر کون کاروائی کرے گا کہ اب تو سندھ کے وزیر اعلیٰ تک نے وہ بات کہہ دی ہے جو ان کے شایان شان نہ ہے اور نہ ہی کوئی حکومت اس کی اجازت دے سکتی ہے کہ حکومت در حکومت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہمیں سوئی گیس نہ دی گئی تو ہم دفاتر بند کر کے پنجاب کی گیس بند کردیں گے جیسے باغیانہ بیانات پر نواز حکومت چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے تو ایسے “دلیر” افراد کو ضرور ہی شہ ملے گی گیس نہ پنجاب کی ہی نہ سندھ کی وہ پورے پاکستان کی ہے اس پر سندھ پنجابی کا لیبل لگانا کہاں کی پاکستان کے نظریے سے وفاداری ہے۔
حکمرانوں کی نا اہلی و عدم توجہی کی وجہ سے گیس کی کمی کو پورے ملک کی عوام کوہی بھگتنا ہوگا اور پوری قوم پہلے بھی ناشتہ کھانا پکاتے وقت گیس کا رونا روتی رہتی ہے یہ سب کچھ راہنمائوں کی کرپشنوں کو چھپانے اور ہضم کرنے کے حیلے بہانے ہیں مگر خود نواز حکومت بھی تو اپنے بچائو کے لیے مک مکا کر نے پرمجبور ہے کہ پانامہ لیکس کا اب آنے والا فیصلہ انہیں اندرون تک سانپ کے زہریلے ڈنگ کی طرح ڈسنے کو تیار بیٹھا ہے اگر کمیشن بنادیا گیاتو وقتی طور پر یہ ساری بلا دفن ہوجائے گیاور پھر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک کی طرح بڑا عرصہ تحقیق تفتیش میںلگے گادریں اثناء شاید اگلے الیکشن بھی ہو چکے ہوں گے۔سندھ کے اندرلسانی بنیادوں پر تشدد اور قتل وغارت گری ابھی قصہ پارینہ نہیں ہوئی وہ شعلہ سلگتا رہتا ہے کاش ہمارے مقتدر اکابرین ایسی باتوں سے پر ہیز کریں کہ مجیب الرحمٰن کی ایسی ہی گفتگوئوں نے بالآخر ملک کا تیا پانچہ کر ڈالا تھا اور ہم ہندوئوں کے گھونپے گئے خنجروں کی کسک اور درد آج تک محسوس کر رہے ہیں اور وہ جاتے ہوئے 28ہزار ہماری بہنوں بچیوں کو اٹھا کر لے گئے تھے وہ بدستور ہماری غیرت کے منہ پر تمانچہ کی طرح آج بھی موجود ہے۔