تحریر: محمد عرفان چودھری Mossack Fonseca & Co جو کہ 1977 ء میں سینٹرل امریکہ کے ہسپانوی ملک پانامہ میں قائم ہوئی اس کمپنی کے ذمے ملکوں کو ٹیکس فری کمپنیاں بنانے کے لئے معاونت مہیا کرنا تھا Mossack Fonseca & Co نے 1977 سے لے کر 2016 تک تقریباََ تین لاکھ کمپنیوں کو رجسٹر کیا پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر رہنے والی کمپنی اس وقت عام لوگوں کے ذہن پر سوار ہوئی جب 2016 میں اسی ملکوں کی سو سے زائد خبر رساں ایجنسیوں کے تقریباََ چار سو نمائندوں نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ٹیم کے ذریعے تحقیقات کے بعد ایک ارب پندرہ لاکھ (11.5 ملین) برقی دستاویزات کو عام کر دیا ان دستاویزات کو ای میلز، پی ڈی ایف فائلز اور تصویری مواد کی صورت میں منظر عام پر لایا گیا جس کا حجم تقریباََ 2.6 ٹیرابائٹ بنتا ہے ان دستاویزات کو پانامہ پیپر کے نام سے موسوم کیا گیا۔
پانامہ پیپر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف ملکوں کی سیاست میں بھونچال آ گیا کیونکہ ان دستاویزات کے مطابق مختلف ملکوں کے سابق و موجودہ سربراہان ٹیکس چوری کرنے میں شامل تھے (یہاں پر ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ یہ ٹیکس چوری پانامہ کے قانون کے مطابق چوری نہیں ہے پانامہ دوسرے ملکوں کو دعوت دیتا ہے کہ اُن کے ملک میں آف شور کمپنیاں بنائی جائیں جو کہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی اور کمپنی بنانے والوں سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اُن کا پیسہ کالا ہے یا سفید) ان ملکوں میں شام کا صدر بشارالاسد، مصر کا سابق صدر حسنی مبارک، لیبیا کا معمر قذافی، آئس لینڈ کا وزیر اعظم سگمنڈر، روسی صدر ولاڈمیر پیوٹن، یوراگوئی صدر جان پیڈرو ڈامیانی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے بچے حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز و دیگر ممالک کے صدور و وزیر اعظم شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر پرسن عمران احمد خان نیازی نے نومبر 2016 میں پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کے نام پانامہ پیپر میں آنے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے درخواست دائر کر دی جس کی سماعت فروری 2017 تک جاری رہی اور فروری کے آخر میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے دو ماہ کا وقت لیا اس دوران ملک میں عجب داستانیں سننے کو ملتی رہیں ہر شخص نے اپنی جماعت کی مالا جپھتے ہوئے دوسری جماعت پر تنقید کی جس میں سیاسی لیڈرز اور اپوزیشن جماعتیں پیش پیش رہیں چنانچہ دو ماہ بعد اپریل 2017 میں معزز عدالت نے فیصلے کا پنڈورا باکس کھولا جس کے تحت دو جج صاحبان نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جبکہ تین ججوں نے مزید تحقیقات کرنے کا حکم جاری کیا چنانچہ اس ضمن میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی جس کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (امیگریشن) واجد ضیاء کے سپرد کی گئی اور حکم دیا گیا کہ جے آئی ٹی دو ماہ میں کیس کی شفاف تحقیق کر کے تمام رپورٹ براہ راست سپریم کورٹ میں جمع کروائے ، عدالت کے اس فیصلے کے بعد ملک میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جو کہ حکمران اور اپوزیشن جماعت دونوں جانب سے بانٹی گئیں مگر کیس کے فیصلے کی سمجھ کسی کو بھی نہیں آئی جو کہ یقیناََ معزز ججز کے الفاظ کا عکاس ہے کہ ”ایک تاریخی فیصلہ ہوگا ” ۔
قارئین کرام ! جے آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے جانفشانی سے کام کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات شروع کیں اور پانامہ پیپر کی روشنی میں لندن فلیٹس ، حدیبیہ پیپر مل لمیٹڈاور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے نواز شریف سمیت حسین نواز، حسن نواز، مریم نواز، شہباز شریف، اسحاق ڈار، کیپٹن صفدر، رحمان ملک اور دیگر (ن) لیگی ارکان کوجے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا گیا اس تمام کارروائی کے دوران ملکی سیاست گراوٹ کا شکار رہی جس کے اثرات سٹاک ایکسچینج پر بھی مرتب ہوئے اور دو ماہ کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 10 جولائی2017 کو تمام تفصیلات سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کی جائیں گی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر عوام کی نگاہیں عدالت عالیہ کے تاریخی فیصلے کی جانب مرکوز ہو جائیں گی یہ تمام کارروائیاں دیکھنے کے بعد شیدا کہتا ہے کہ سرکار پانامہ کیس میں جن جن کو بلایا گیا ٹھیک بلایا گیا مگر شریف فیملی کے علاوہ اور بھی نام پانامہ پیپر میں آئے تھے اُن کے کیس کے متعلق فیصلہ کون کرے گا ؟ شیدے نے ناجانے کہاں سے سن لیا ہے کہ پانامہ پیپر میں سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو مرحوم کا نام بھی شامل ہے شیدا یہ بھی کہتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج فرخ عرفان کے نام پر بھی Anrol Limited نامی آف شور کمپنی ہے، سابق اٹارنی جنرل اور سینئیر ایڈووکیٹ آف سپریم کورٹ ملک محمد قیوم کی 12 آف شور کمپنیاں ہیں، سابق وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور سینیٹر انور سیف اللہ کے نام پر 7 آف شور کمپنیاں ہیں ، سابق رکن قومی اسمبلی ہمایوں سیف اللہ کی 4 ، رکن سینیٹ عثمان سیف اللہ 4 ، کشمیر افئیرز و گلگت بلتستان کمیٹی کے چئیرمین اور سینیٹر سلیم سیف اللہ 6 کمپنیوں کے مالک ہیں۔
شیدے کی معلومات یقیناََ حیران کر دینے والی ہیں کہ ایک چٹا ان پڑھ بندہ اتنی معلومات رکھتا ہے اور اس بات پر سوال بھی اٹھاتا ہے کہ صرف نواز شریف اینڈ فیملی ہی کیوں پانامہ کیس کی ذد میں آئے ہیں؟ کہیں یہ سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے جس کے تحت وزیر اعظم کے اقتدار کو ہمیشہ کی طرح کاری ضرب لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا جائے، کیا عمران خان کو صرف نواز شریف کو نا اہل کروا کے تبدیلی لانی ہے کیا عمران خان کو زرداری کے دورِ حکومت میں دھرنے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کیا طاہر القادری کا سیاسی بھائی چارہ صرف نواز شریف کے خلاف ہے، کیا عمران خان اور طاہر القادری کو پرویز مشرف نظر نہیں آتا جو بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہو چکا ہے ، کیا ایان علی، ڈاکٹر عاصم، حاجیوں کے کروڑوں روپے کھانے والے حامد سعید کاظمی ان کی نظروں سے اوجھل ہیں، پانامہ کیس میں حسن بھٹو، ثمینہ درانی، وسیم گلزار، ڈاکٹر اقبال سیف اللہ، جہانگیر سیف اللہ، زین سکھیرا،سیفائر ٹیکسٹائل کی عبداللہ فیملی، سدرودین ہاشوانی، برجر پینٹس کے محمود احمد، بکسلی پینٹس کے بشیر احمد، حبیب بینک کے سلطان علی آلانہ، چینل 24 کے فنانسر گوہر اعجاز، پیزا ہٹ کے عقیل حسن اور تنویر حسن، لیکسن گروپ کے مالک ذوالفقار لاکھانی، دائود کمپنی کے حسین دائود،بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض حسین کے بیٹے احمد علی ریاض، مسعود ٹیکسٹائل کے شاہد نذیر، اے بی ایم گروپ کے چئیرمین اعظم سلطان ، جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن کے علاوہ تقریباََ 350 نام ہیں کیا یہ سب نام عمران خان کی آنکھوں سے پرے ہیں ؟قارئین کرام شیدے کی باتیں واقع آنکھیں کھول دینی والی ہیں مگر میں نے شیدے کو سمجھایا ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف فیملی کی طرح باقی لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا ہوا ہے مگر شیدا ماننے کو تیار نہیں ہے۔
شیدا کہتا ہے کہ اگر باقی لوگوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہو رہی ہے تو اُس کارروائی کو منظر عام پر لایا جائے اور بتایا جائے کہ پانامہ کیس میں آنے والوں ناموں میں سے کتنے ناموں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور کن کن کو سزا دی جا چکی ہے؟ شیدا آخر میں کہتا ہے کہ سرکار جب پانامہ کی رپورٹ جمع کروائی جائے گی تب سپریم کورٹ سے مزید مہلت مانگی جائے گی تا کہ مزید تحقیق کی جا سکے اس کے علاوہ جب تمام کیس فائنل ہو جائے گا تب سپریم کورٹ پھر فیصلہ محفوظ کر لے گی پھر فیصلہ سنایا جائے گا پھر دونوں جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی جائیں گی پھر یا تو نوازشریف، شریف نہیں رہے گا یا جدہ فرار ہو جائیں گے یا عمران خان دھرنے پہ بیٹھ جائیں گے یا شہباز شریف نئے وزیر اعظم بن جائیں گے مگر ان تمام فیصلوں کا فائدہ زرداری صاحب نہیں اٹھا سکیں گے ، شیدا پریشان ہے کہ عدالت کیا تاریخی فیصلہ سنائے گی کیونکہ ان تمام کارروائیوں کا براہ راست اثر شیدے کی دیہاڑی پر پڑتا ہے شیدا ڈالر کو لگنے والے پروں سے بھی خائف نظر آتا ہے شیدا دُعا گو ہے کہ جو بھی تاریخی فیصلہ ہو وہ عوام کے حق میں آئے کسی سیاسی جماعت کے نہیں۔۔۔