اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے دونوں بیٹوں کا ہے، وہی اس کا جواب دیں گے، حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ کوئی پیسہ کاروبار کیلئے باہر گیا؟۔ اگر پیسہ غیر قانونی طریقے سے باہر گیا تو یہ جرم اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چودھری نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی روانگی پر بے سروپا باتیں کی جا رہی ہیں۔ مخالفین بہت گھٹیا لیول کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔
سیاست میں الزام لگانے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کسی سے ملاقات کیلئے نہیں بلکہ علاج کیلئے لندن گئے ہیں۔ نواز شریف کو ہارٹ بیٹ کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹروں نے جیسے ہی اجازت دی وزیراعظم وطن واپس آ جائیں گے۔ طبعیت کی خرابی پر پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔ اس ماحول میں ہوش اور انصاف کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے، جو لوگ پیچھے ہیں وہ میڈیا ٹرائل کا استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دورہ امریکا کے بعد وزیراعظم کی لندن میں ڈاکٹر کے ساتھ اپائنٹمنٹ طے تھی لیکن دورہ امریکا کی منسوخی کی وجہ سے وہ اپنا علاج کروانے بھی نہ جا سکے۔ اگر وزیراعظم نے کوئی بہانہ ہی کرنا تھا تو دورہ ترکی سے وہاں بھی جا سکتے تھے لیکن دورہ ترکی میں وزیراعظم کی جگہ صدر ممنون حسین گئے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کا معاملہ منظر عام پر آنے کے فوری بعد وزیراعظم نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
اگر معاملے کو چھپانا ہوتا تو ججوں سے رابطے نہ کرتے۔ اس سلسلے میں جسٹس ناصر الملک، جسٹس تصدق جیلانی، امیر الملک مینگل، جسٹس سائر علی اور جسٹس تنویر علی سے درخواست کی گئی۔ ان میں سے کچھ ججوں سے معذرت کر لی اور کچھ نے وقت مانگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ہر جج قابل احترام ہے۔
اس وقت ججز کمیشن میں آنے سے کترا رہے ہیں مزید ججوں سے بھی رابطہ ہے لیکن ان کا نام نہیں لوں گا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ کیا سارے قوانین وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان والوں پر لاگو ہوتے ہیں؟۔ بیرون ملک کاروبار کرنا ناجائز ہے تو ہر رکن قومی اسمبلی کیلئے ناجائز ہونا چاہیے۔
عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے افراد کے نام بھی پاناما لیکس میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے تضاد ہماری طرف سے نہیں بلکہ اپوزیشن کی جانب سے آ رہے ہیں۔
عمران خان اور اپوزیشن فیصلہ کرلے کہ تحقیقات کس سے کرانی ہے۔ انویسٹی گیشن ہوگی تو معاملہ آگے بڑھے گا۔ حکومت ہر چیز کو سامنے لانا چاہتی ہے تاکہ معاملات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔