تحریر : نوشاد حمید پاناما لیکس نے پُوری دُنیا میں ہنگامہ برپا کیا۔ پاکستان کے موجودہ حکمران بھی اس کی زد میں آ گئے۔ حالانکہ یہ پاناما تو ان کی کرپشن کا ایک چھوٹا سا لِیک ہے۔ دُنیا کے درجنوں ممالک تُرکی، چین، بھارت، کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، امریکا، برطانیہ وغیرہ ہر جگہ پر ان کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک پاناما گیٹ موجود ہے جس تک ابھی کسی عالمی انویسٹی گیشن ادارے اور ہمارے میڈیا کی نظر ہی نہیں گئی۔
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے جب لاہور کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پاکستان کے خفیہ اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے توفیق بٹ عرف ٹافی بٹ کو 30 کلو سونے اورتقریباً 13کروڑ روپے کی نقدی کے ساتھ گرفتار کیا۔ بعد میں حاصل ہونے والی تفصیلات سے پتا چلا کہ ٹافی بٹ مسلم لیگ نواز کا ایک اہم کارکن ہے اور اُس کے جماعت کی لیڈر شپ کے ساتھ خاص تعلقات ہیں۔ ہوش رُبا حقیقت یہ تھی کہ اس سے پہلے بھی ٹافی بٹ 105 مرتبہ اپنے بھانجے باسط کے ساتھ مل کر اتنی ہی مالیت کی اشیاء دوبئی منتقل کر چکا تھا مگر 106ویں مرتبہ اس کی قسمت نے ساتھ نہ دِیا۔
یقینا حیرانی کی بات ہے کہ سو سے زائد مرتبہ یہ اربوں روپے مالیت کا سونا اور کرنسی کیونکر باہر منتقل کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ وجہ صاف تھی کہ ایئرپورٹ کا عملہ اس کی تمام کارروائی سے پُوری طرح باخبر تھا۔ مگر غیبی اشاروں کی بِنا پر سارے چُپ سادھے بیٹھے تھے بلکہ اُس کو ہر مرتبہ خصوصی سہولت کے ساتھ کسٹم اور سامان کی چیکنگ وغیرہ کے مراحل سے ‘کلیئر’ کرایا جاتا۔پھر کسی واقفِ حال محبِ وطن نے کسی طرح حساس اداروں تک یہ بات پہنچا دی۔ ٹافی بٹ کی کی گرفتاری کے وقت حکام کی جانب سے یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ ٹافی بٹ کے ڈانڈے کچھ اعلیٰ سیاسی شخصیات سے مِلتے ہیں اور یہ کہ چند روز میں بہت ہوش رُبا انکشافات سامنے آئیں گے۔ مگر پھر جانے کہاں سے کسی طاقتور کا اشارہ آیا اور سب معاملہ ٹھپ کر دیا گیا۔ اس وقت کسی کو ٹافی بٹ کا نام بھی پتا نہیں ہو گا۔ یہ ٹافی بٹ تو کالے دھن کی باہر منتقلی کا ایک چھوٹا سا کل پرزہ تھا۔ اس کی گرفتاری سے کوئی فرق نہیں پڑا اور اس کے جیسے بیسیوں افراد اپنے سیاسی آقائوں کے حکم کی تعمیل کی خاطر اس مذموم کارروائی میں دن رات جٹے ہوئے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ان کو قانون و احتساب کی گرفت میں لا سکے۔ ان مذکورہ حقائق سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کونسا نام نہاد معتبر سیاسی خانوادہ مُلک کا اربوں روپیہ باہر منتقل کرنے میں سرفہرست ہے۔ یہاں تو میڈیا ایک ایان علی اور اس کے گاڈ فادر کو روتا رہا، مگر اربوں روپے خاموشی سے منتقل کرنے والے معصوم چہرہ شریفوں پر کسی کا دھیان تک نہ گیا۔ کسی نے آج تک تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ شریفوں کے پاس ایان علی جیسے کتنے درجن کردار موجود ہیں۔ یہ پیسہ کہاں سے اکٹھا ہوا، کیسے اکٹھے ہوا، کس نے اکٹھا کیا، کہاں منتقل کیا گیا اور اس کو کس مصرف میں لایا گیا، اس بارے میں سب کچھ پردہ اخفاء میں ہے۔
شریف مافیا کی مصروفیات بہت وسیع ہیں۔ سینکڑوں صفحات کے صفحات کالے ہو جائیں پھر بھی ان کے دھندوں اور کمائی کے ناجائز طریقوں کی تفصیلات کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہ ہو سکے گا۔ ان لوگوں کاایک محبوب مشغلہ بیرونِ ملک مقیم افراد کی اربوں کروڑوں کی جائیداد پر خود ہی قبضے کروانا پھر اس کے بعد انہیں اپنی جائیداد اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور کرنا ہے یا پھر ان پر سے قبضہ ختم کروانے کی بھاری رقم وصول کی جاتی ہے۔ ہر محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں سے اُن کی اُوپری کمائی سے میں خطیر رقم بطور بھتہ وصول کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ لاہور کے ٹاپ کے قبضہ گروپوں اور مافیاز کی سرپرستی کر کے اُن سے بھی سالانہ کروڑوں روپے وصولے جاتے ہیں۔ ہر ایم این اے، ایم پی اے سے اُس کے ترقیاتی فنڈز اور دُوسرے گھپلوں میں سے بھی حصّہ رکھوایا جاتا ہے۔ ہر کنسٹرکشن کمپنی کو سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات کا ٹھیکہ مفت یا میرٹ پر نہیں مِل جاتا، بلکہ اس کے لیے کنسٹرکشن کمپنی کو مرکز اور پنجاب دونوں جگہوں پر موجود اعلیٰ ترین سیاسی شخصیات کی جیب اور مُٹھیاں گرم کرنا پڑتی ہیں۔ ان کی کاروباری جدت طرازی کا کیا کہنے کہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد پولیس کی جانب سے سنگین جرائم اور پولیس مقابلوں میں ملوث افراد کے نام پر فہرست جاری کروائی جاتی ہے جس میں بہت سے بے گناہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں ان جرائم پیشہ اور بے گناہ لوگوں سے بھاری رقم وصول کر کے مُک مُکا ہوتا ہے اور ان کے نام اگلی فہرست سے خارج ہو جاتے ہیں۔اس شریفیہ اندازِ تجارت کے باعث ہی آج پنجاب میں جرائم کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ چند بھولے لوگوں کو یہ خوش فہمی ہو چکی ہے کہ نواز شریف کے بڑی تعداد میں بیرونِ ممالک دوروں کا مقصد پاکستان کے لیے ترقی اور سرمایہ کاری کی نِت نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔ جی نہیں، یہ کثیر دورے اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ ہر بار بڑی گنتی میں پیسہ اور بھاری مقدار میں سونا بِنا کسی خوف و خطر کے وزیر اعظم کے جہاز کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل ہو سکے۔ان کے اقتدار سے الگ ہونے کی دیر ہے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
مذکورہ تمام طریقوں یعنی بلڈ منی، بلیک منی اور کِک بیکس سے حاصل ہونے والا اربوں روپیے کا کلیکشن سنٹر ارفہ کریم ٹاور میں قائم کیا گیا ہے۔ بالکل وہی ارفہ کریم سنٹر جو پاکستان کی ایک ہونہار بچی کی کم سنی میں وفات کے بعد اُس کی ذات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر تعمیر کیا گیا تھا۔ آج اُس بچی کی رُوح کتنی پریشانی میں ہو گی کہ اُس کے نام سے بنی عمارت سائنسی ترقی کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی بجائے انسانیت سوز اور گھنائونے طریقوں سے حاصل ہونے والے پیسے کی کلیکشن کاسب سے بڑا مرکز بن چکی ہے۔پھر یہاں سے تمام پیسہ دبئی میں موجود وزیر اعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کے بزنس سنٹرہجویری ٹاور منتقل ہو رہا ہے۔ اس جگہ کا نام شاید اس لیے ہجویری ٹاور رکھا گیا کیونکہ اس کی تعمیر کے دوران خرچ ہوئی رقم میں داتا علی ہجویری کے مزار پر غریب عوام کی طرف سے بطور نذرانہ نچھاور کی گئی کروڑوں روپے کی نقدی بھی شامل ہو گی۔ کیونکہ موصوف دربار کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور مزار کو ہر سال بطور نذرانہ اکٹھی ہونے والی رقم تک ان کی اچھی بھلی رسائی ہے۔
خیر، ہجویری ٹاور میں جمع ہونے والی اس کمائی میں سے اسحاق ڈارکی جانب سے اپنا حصّہ الگ کرنے کے بعددُنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا جاتا ہے جہاں پریہ رقم شریف برادران کی مختلف آف شور کمپنیوں اور پراجیکٹس میں کھپا دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ پُراسرار طریقہ کار جس کی بدولت انہوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران قوم کا کئی سو ارب روپیہ بیرونِ ملک منتقل کیا اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے دوران بھی گرفت میں آئے بغیر کرتے رہے۔ جب سے پانامہ کا ہنگامہ گرم ہوا اور انہیں محسوس ہونے لگا کہ شاید اُنہیں اقتدار میں رہ کر مزید لُوٹ مار کا موقع نہ مِلے۔ تو سمدھیوں نے مِلی بھُگت سے سونے کے سرکاری ذخائر کو دھڑا دھڑ بیرونِ ملک منتقل کیا۔ اسی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا جو آج 108 روپے سے تجاویز کر گیا ہے۔ ہائے اس سادگی پہ کون نہ مر جائے جب معصوم چہرے والے نواز شریف کا معصوم سمدھی اسحاق ڈار فریاد کرتا ہے کہ وہ تو گواہ کے طور پر پانامہ کیس میں حاضر ہوا تھا مگر اُس سے بھی اثاثوں کا حساب مانگ لیا گیا ہے۔ اور حساب بھی ان اثاثوں کا دینا پڑ رہا ہے جو پچھلے پانچ سالوں میں 800گُنا کی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکے ہیں۔ نواز شریف کے ہر سیاہ سفید کا سب سے بڑا رازدار اسحاق ڈار ہی ہے۔
بہرحال ابھی اسحاق ڈار کو اپنا رونا بچا کے رکھنا چاہیے کیونکہ ابھی توعنقریب اور بہت سے مقاماتِ آہ و فغاں منتظر ہیں۔ وہ سمدھی تو بن گیا مگر یہ بھول گیا کہ شریف برادران اپنے بیٹے بیٹیوں کو بچانے کی خاطر اپنے دامادوں اور سمدھیوں کو بھی قربانی کا بکرا بنا دیتے ہیں۔ لاہور کے بیکری سکینڈل کی مثال سب کے سامنے ہے۔ قصور کسی اور کا تھا مگر اپنی صاحبزادی کو بچانے کی خاطرخادمِ اعلیٰ نے اپنے داماد علی عمران کو قربانی کا بکرا بنا کر ہتھکڑیاں لگوا دیں ۔ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ شریف اپنی کرپشن کی غلاظت کا تمام تر ڈھیر یا تو اسحاق ڈار پر لادنے کی کوشش کریں گے یا پھر مریم نواز کو بچانے کی خاطر تمام تر ناجائز اثاثے بے بس اور لاچار داماد کیپٹن صفدر کے کھاتے میں ڈال دیں گے اور بے چارہ داماد نہ چاہتے ہوئے بھی آلِ شریفیہ کی عزت و ناموس کے تحفظ کی قربان گاہ پر قربان کر دیا جائے گا ۔ اب اتنی محنت سے بنی ایمپائر کو اتنی آسانی سے کیسے گنوا یا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شریف برادران کاروباری معاملات میں ایک ضرور ہیں مگر سیاسی اور وراثتی معاملات میں ان کے درمیان وسیع خلیج حائل ہو چکی ہے۔ مائنس نواز فارمولا سب سے زیادہ شہباز شریف کے مفاد میں ہے۔
قارئین کرام! اس مُلک میں طاقتور اور کمزور کے لیے یکساں انصاف کی فراہمی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ کوئی چھوٹا سا چور دو کلو آٹا چوری کر لے تو پولیس اس سے پانچ منٹوں میں اس کے گناہ کا اقرار کروا لیتی ہے۔ مگر یہاں تو اربوں کھربوں روپے کی لُوٹ کا سوال ہے۔ یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی طول کھینچ گیا۔ یقیناً جے آئی ٹی کا بننا اچھا امر تھا لیکن اس جے آئی ٹی کو بھی متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اگر پانامہ کیس کے ملزمان کے لیے دیسی طریقہ استعمال کیا جاتا اور مشہور ڈراما سیریل ‘اندھیرا اُجالا’ کے جھلّے ڈائریکٹ حوالدار کرم داد کو بھی یہ ملزمان سونپ دیئے جاتے تو وہ ان سے وہ سب کچھ بھی اُگلوا لیتا جو جے آئی ٹی کی نظروں سے بھی اوجھل رہا اور جس کے بارے میں شایدپاکستانی عوام اگلے دس بیس سالوں میں بھی نہ جان سکیں۔جے آئی ٹی ممبران کو جو دستاویزات اور حقائق اکٹھا کرنے میں اتنی محنت اور ترلے منتوں سے کام لینا پڑا اگر ٹافی بٹ جیسے درجنوں لوگوں سے جرح ہو جاتی تو ان کی ساری منی ٹریل اور طریقہ واردات سمجھ میں آ جاتا اور حقائق پوری طرح کھُل کر سامنے آ جاتے۔ یقینا پہلی بار اس مُلک میں بالا دست طبقے کے احتساب کی نوبت قریب آن پہنچی ہے۔ اگر یہ ممکن ہو گیا تو موجودہ عدلیہ اور جے آئی ٹی کے باضمیر ارکان کے نام عدل و انصاف کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حرفوں میں محفوظ ہو جائیں گے۔