تحریر : سجاد گل کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا نظامِ عدالت بہت عجیب و غریب تھا ،اس نے ایک تماشا گاہ بنائی ہوئی تھی، اس میں دو کمرے بنائے گئے تھے،جب کوئی شخص جرم کرتا تو ایک کمرے میں اس ریاست کی کوئی خوبصورت لڑکی دلہن بنا کر بٹھا دی جاتی اور دوسرے کمرے میں ایک خون خوارشیر ڈال دیا جاتا پھر مجرم کوکہا جاتا کہ اپنی مرضی سے کسی ایک کمرے کادروازہ کھولو،چونکہ شیر اورلڑکی رازدارانہ طریقے سے کمرے میں داخل کئے جاتے تھے لہذا مجرم نہیں جانتا تھا کہ وہ جس کمرے کا دروازہ کھول رہا ہے اس میں شیر ہے یا دلہن ،اگر چہ شیر نکلتا تو مجرم کو ہزاروں لوگوں کے سامنے چیر پھاڑکر بوٹی بوٹی کردیتا ،اور لڑکی نکلتی توباعزت طریقے سے ملزم کو بری کر کے اس دلہن سے بیاہ کر ڈھول باجوں اور پھولوں کی برسات میں رخصت کر دیا جاتا،بادشاہ کے درباریوں میں ایک خوبصورت نوجوان بھی شامل تھا،بادشاہ کی بیٹی اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے،دوسری جانب اس ریاست کی سب سے خوبصورت لڑکی بھی اس کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور اسے بھی اس لڑکے سے پیار ہو جاتا ہے،مگر لڑکا درحقیقت بادشاہ کی بیٹی سے ہی پیار کرتا ہے،
ایک دفعہ ریاست کی وہ خوبصورت لڑکی راستے میں اس کے سامنے آ جاتی ہے اور ان کے درمیان مختصر سی گفت و شنید بھی ہو تی ہے،اور یہ بات کسی طرح بادشاہ کی بیٹی تک پہنچ جاتی ہے،لڑکا اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ وہ لڑکی اس سے پیار کرتی ہے،البتہ بادشاہ کی بیٹی کو اپنی سہلیوں کے ذریعے اس بات کا علم ہوجاتا ہے،اس وجہ سے بادشاہ کی بیٹی کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ لڑکا خوبصورت لڑکی کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر کہیں اسے دل نہ دے بیٹھے،اسی کش مکش میں بادشاہ کی بیٹی اور لڑکے کی عاشقی کا رازسب پرعیاں ہو جاتا ہے،بادشاہ کی نظرمیں یہ ایک جرم ِ عظیم تھا لہذا بادشاہ نے اس لڑکے کو بھی وہی سزا دینے کا فیصلہ کیا ،بادشاہ نے حکم دیا کہ مجرم نے سنگین جرم کا ارتقاب کیا ہے لہذا اس کے لئے سب سے خطرناک شیر لایا جائے اور دوسری جانب ریاست کی سب سے خوبصورت لڑکی دلہن بنا کر لائی جائے، پھر کیا تھا وہی لڑکی دلہن بنا کر لائی گئی جو اس لڑکے سے پیار کرتی تھی جس سے بادشاہ کی بیٹی کو حسد تھا،بادشاہ کی بیٹی جانتی تھی کی کس کمرے میں شیر اور کس میں لڑکی ہے،
King
لوگ منتظر تھے کہ کہ خوبصورت لڑکے کا انجام کیا ہو گا ،اسے شیر چیر پھاڑ جائے گا یا سب سے خوبصورت لڑکی کا دولہا بنا کر با عزت طریقے سے رخصت کر دیا جائے گا، آخر کاروہ وقت بھی آ گیا جب لڑکے کو تماشا گاہ میںا تار دیا گیا ،لڑکے نے اپنی معشوق کی جانب دیکھا جو بادشاہ کی دائیں جانب بیٹھی حالتِ اضطراب میں نظر آرہی تھی،لڑکے نے بادشاہ کی بیٹی سے تمام لوگوں کی نظروں سے بچتے ہوئے اشارةََپوچھا کہ وہ کونسا دروازہ کھولے،لڑکی نے کہا دائیں جانب والا،یہ افسانہ لکھنے والا افسانہ نگار(فرنیک آرسٹاکٹن) یہاں پر یہ لکھتے ہوئے افسانہ ختم کر دیتا ہے کہ فیصلہ آپ پہ چھوڑتا ہوں کہ لڑکی نے جو دروازہ بتایا تھا وہاں سے شیر نکلا ہو گا یا دلہن،کیوں کہ اگر بادشاہ کی بیٹی نے شیر والا دروازہ بتایا ہو گا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اسکے عاشق کو شیر نے بوٹی بوٹی کر دیا ہو گا،اور اگراس نے دلہن والا دروازہ بتایا ہو گا تو اسکی نظروں کے سامنے وہی لڑکی جس سے اسے حسد تھا اسے کے محبوب کا ہاتھ تھامے پھولوں کی برسات میں رخصت ہو گئی ہوگی۔
میں نے اس افسانے کو پاکستان میں موجود سزا و جزا کے نظام اور عدل و انصاف کے قانون سے مشابہ پایا ہے ، جہاں کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو جائے گا،جیسے شیر نکلے گا یا لڑکی،نظام جنبش میں آئے تو ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی پہ لٹکا دے، حرکت میں نہ آئے تو لیاقت علی خان کی شہادت پر اس شعر کا مصداق بنتا پھرے۔
کیوں کریدتے ہو تراب و تربت کو قصہِ درینہ ہے ،اب بھول جائیے نا
بے نظیر کے قتل اور اس کے بعد لوٹ گھسوٹ کابازارگرم اور مملکت پاکستان کا کروڑوںروپے کی املاک کے نقصان پر ان محاورات کی عملی تصویر”چھوڑو جی مٹی پائو”اور ”رات گئی بات گئی”۔ حکیم سعید (ہمدرد کے بانی)بندہِ مومن ،عاجزی و انکساری کے پیکر ،دل میں دردِ انسانیت کے جزبات،دماغ میں خدمتِ بنی آدم کا سودا، اورانکاسرخ سرخ لہو،لال لال خون ، کراچی کی زمین چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ انکی شہادت پر یہ شعر فٹ کیا جائے تو کوئی عیب کی بات نہیں،
میں نہیں رہا محفل میں بات تو سچ ہے محفل کا وہی رنگ ہے جھوٹ یہ بھی نہیں
Panama leak
١٧ اکتوبر ١٩٩٨ کو جب وہ شہید ہوئے تو میری عمر ١٣ سال تھی میں انکے ماہنامہ نونہال کا مستقل قاری تھا ،بلکہ یوں کہا جائے کہ میری طبیعت کے اندر ادبی رنگ بھرنے میںماہنامہ نونہال کا اہم کردار ہے توغلط نہ ہو گا،میں نے یہ خبر سنی تو دل میں درد سا اٹھا اور جذباتی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے لگا ”یا اللہ جن لوگوں نے حکیم صاحب کو قتل کیا ہے انکو پھانسی ہو جائے”
عشق تھا نادانوں سرکش و چالاک میرا آسماں چیر گیا ،نالہِ بے باک میرا
اب میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے ١٣ سالہ بچے کی دعا کیوں نہیں قبول کی تھی،مجھے اس کا جواب مل چکا ہے،وجہ یہ تھی انہیں پاکستان میں شہید کیا گیا اور یہا ں کیا پتہ کس دروازے سے کیا نکلے،مجرم کو لٹکا دیا جائے یا پھر ہیروبنا کر پیش کر دیا جائے۔
کل تک جنرل ضیاء الحق مرحوم قوم کے ہیرو تھے ، اسلامی نظام کے دلفریب نعرے گونجا کرتے تھے مولوی حضرات ان نعروں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئے تھے، ٹرکوں پر جنرل ضیاء کے فوٹو، سکولوں کالجوں میں جنرل ضیاء کے سٹیکرز، کتابوں کاپیوں پر جنرل ضیاء کی تصویریں ،کون کہہ سکتا تھا آج کا ہیرو کل مجرم بنا کر پیش کیا جائے گا،9/11سے پہلے بلاشبہ وہ ہیرو ہی تھے مگر اب ….؟؟؟؟چھوڑیں تفصیل میں نہیں جاتے۔
نہ چھیڑووہ افسانہ کوئی بات نکل نہ جائے میرا حال تم نہ پوچھو کہیں راز کھل نہ جائے
اب پانامہ لیک کا شورِبدتمیزی برپا ہے اور مختلف چہ مگوہیاں ہو رہی ہیں ،کہاجا رہا ہے،اب تو بغیر بالوں والے صاحب کا احتساب لازم و ملزوم ہے،مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ اس ملک میں احتساب کے قانون کی زد میں صرف غریب لوگ آسکتے ہیں،صرف غریب عوام جو دروازہ کھولیںگے اس سے شیر نکلے گا،اس کے برعکس جاگیردار،پٹواری،جگے، ٹھگے،چور اور بدمعاش جب بھی دروازہ کھولیں گے سجی سجائی دلہن ہی نکلے گی،پہلی بات تو یہ انکی زندگی میںا حتساب کا ہونا ناممکن نظر آ رہا ہے، ہاںہو سکتا ہے کل مرنے کے بعد ان کو بھی احتساب کے کٹہرے میں پیش کر کے ہیرو سے زیرو کردیا جائے ۔اور پھر… ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوںنہ غرقِ دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا