پاناما (جیوڈیسک) دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خفیہ اکاؤنٹس اور کمپنیوں سے متعلق دستاویزات شائع کر کے تہلکہ مچانے والی پاناما لیکس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آ گیا ہے جس میں تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے فنانسر اور علیم خان سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔
پاناما لیکس کی جانب سے جو نئی دستاویزات شائع کی گئی ہیں ان میں مزید 400 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، آئی سی آئی جے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آف شور کمپنیوں کے ذریعے 12 کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ممالک منتقل کیا گیا جس میں سے زیادہ ترسرمایہ ابھرتی ہوئی معیشت والے ممالک میں منتقل کیا گیا۔ بیرون ملک سرمایہ بھیجنے والے ممالک میں چین، روس، ملائشیا، تھائی لینڈ، انگولا اور نائیجیریا بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کے فنانسر اور قریبی دوست ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی 6 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جب کہ پی ٹی آئی رہنماعلیم خان کا نام بھی آف شور کمپنیاں بنانے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیزدور کے وزیر صحت نصیر خان کے بھائی ظفراللہ خان اور بیٹے محمد جبران کی بھی آف شورکمپنی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیٹھ عابد کے بیٹے ساجد محمود ورجن آئی لینڈ میں کمپنی کے مالک نکلے، سیٹھ عابد کے خاندان کی 30 آف شورکمپنیاں منظرعام پر آئی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے دوست عرفان اقبال بھی 3 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔
پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق ایم ڈی عبدالستار ڈیروکی بھی غیرملکی کمپنیاں ہیں، کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدرشوکت احمد کے نام کمپنی رجسٹرڈ، بیٹا اور بہو شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں۔ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی والدہ صباعبید بھی 3 غیر ملکی کمپنیاں رکھتی ہیں۔
ایڈمرل ریٹائرڈ مظفرحسین کے صاحبزادے اظہرحسین بھی ایک غیرملکی کمپنی میں شیئر ہولڈرہیں، پیپلزپارٹی کی سابق سینیٹر رخسانہ زبیر نے بھی غیرملکی کمپنی میں سرمایہ کاری کی جب کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے کزن طارق اسلام بھی آف شور کمپنی رکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس نے اپنے پہلے ایڈیشن میں آف شور کمپنیاں یا پھر خفیہ اکاؤنٹس رکھنے والے 250 پاکستانیوں سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی 10 لاکھ سے زائد شخصیات کے نام شائع کئے تھے، پانامالیکس کی پہلی قسط میں وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں کے نام سامنے آنے پر وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کے ٹی او آرز کو اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا تھا جب کہ بعض اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔