تحریر : انجم صحرائی پانامہ کیس کا فیصلہ واقعی ایسا ہے کہ لوگ بیس سال یاد رکھیں گے مدعی اور مدعا علیہ سمیت سبھوں نے خو شی سے لڈ یاں ڈالیں جی بھر کر مٹھائی کھا ئی اور اب آ فٹر شاک سبھی سوچ رہے ہیں کہ شاید ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ۔ فیصلہ کو تاریخ ساز ماننے اور مبارک سلامت کے جذ باتی ہچکولوں کے بعد عمران خان نے سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلہ کے تحت شریف خاندان کے خلاف بنا ئی جانے والی جے آ ئی ٹی کو ہی ماننے سے انکار کر دیا انہیں خطرہ ہے کہ مجوزہ جے آ ئی ٹی میں سبھی نوز شریف کی حکومت کے چہیتے ملازمین ہوں گے تو ایسے میں نہ تو شفاف تحقیقات ہوسکیں گی اور نہ ہی انصاف ہو سکے گا دوسری طرف ابال ٹھنڈا ہو نے کے بعد حکمران جماعت کو بھی پانامہ فیصلہ میں چپھے تحفظات نظر آ ہی گئے لیکن وسیع تر قومی مفاد میں بننے والی جے آ ئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کا سند یسہ اس شرط کے ساتھ دیا کہ ہو سکتا ہے ہم فیصلہ کے خلاف نظر ثانی میں چلے جائیں۔
اگر نہ گئے تو حاضر۔۔ ہر قسمی اور ہر سطح پر تعاون کریں گے ۔ رہ گئے شیخ رشید اور سراج الحق تو شیخ رشید کی حسرت پوری نہ ہو سکی نہ قانون کا جنازہ نکلا اور نہ ہی ن کا ۔سراج الحق کو پانا مامہ فیصلہ نے پیپلز پارٹی کی قربت ضرور نصیب کر دی گو نواز گو کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اگر اپوزیشن اتحاد بنتا ہے تو پانا مہ کیس کے صد قے سراج الحق اب آ صف زرداری کے نا آ شنا نہیں رہے ۔ پانامہ لیکس کے فیصلہ کے بعد پی ٹی آ ئی ، شیخ رشید اور جماعت اسلامی طرف سے وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطا لبہ تو آ نا ہی تھا کہ یہ جماعتیں پا نا مہ لیکس کی بنیاد پر وزیر اعظم کی نا اہلی کی درخواستیں لے کر سپریم کورٹ میں گئیں تھیں گو سپریم کورٹ کے پانا مہ فیصلہ میں وزیر اعظم کو نا اہل تو قرار نہیں دیا گیا لیکن وزیر اعظم کے صادق اور امین ہو نے کو متنازعہ بنا دیا اور پانامہ لیکس کی بنیاد اٹھنے والے سوالات کی تحقیقات کے لئے جے آ ئی ٹی بنانے کا حکم سنا یا ۔ پانا مہ لیکس کے آ فٹر شا کس میں سب سے زیادہ حیرانگی پی پی پی کی پھر تیوں پر ہے جو نہ پانامہ لیکس کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں میاں نوز شریف کی حریف تھی اور نہ ہی پی آئی ٹی کی طرف سے لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات میں عمران خان کی حلیف تھی لیکن لگتا ہے کہ گھات لگائے لگائے بیٹھی تھی کہ دکھ بھرے بی فا ختہ کوے انڈے کھائیں ۔۔
مگر پا نامہ کیس کے فیصلہ کے تیسرے ہی دن نا تجربہ کار عمران خان نے دادو (سندھ ) میں تجربہ کار آ صف زرداری کو جیسے پڑھا ، لگتا ہے کہ انڈے کھانے اتنے آ سان نہیں ہوں گے ۔پانامہ لیکس فیصلہ کے بعد بہت سے شور میں ایک طو طی کی آ واز سید ظفر علی شاہ کی بھی ہے جو مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سا بق سینٹر ہیں انہوں نے عین اس وقت جب میاں نوز شریف کے نا اہل ہو نے سے بچ جانے پر متوالے مٹھا ئیوں کے ٹوکرے خالی کر رپے تھے وزیر اعظم کو مستعفی ہو نے کا مشورہ دے کر سارا مزہ کر کرا کر دیا ۔ اختیارو اقتدار کی مضبوط کرسی کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے آپ پر براجمان ہر کسی کو آ خری وقت تک مضبو ط ہو نے کا احساس دلا تی رہتی ہے ذو الفقار علی بھٹو سے پر ویز مشرف تک سبھی اسی خوش فہمی کا شکار ہو ئے۔
اب اگر میاں صاحب بھی اسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ کرسی بہت مضبوط ہے تو بھلا اس کا کیا علاج ؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی خوب کہا کہ پوری دنیامیں جج اختلافی نوٹ لکھتے ہیں مگر کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اتنا شور مچتا ہو جتنا ہمارے ہاں ہو رہا ہے ۔ مگر سننے کے با وجود شور رکا نہیں بڑھ گیا ہے پہلے صرف بیان بازی تھی اب ویڈ یو پیغام بھی آ گیا ہے سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وہ سب کچھ ہو تا ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہو تا۔ آ رمی ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد افغانستان کا وزیر دفاع اور چیف آ ف آ رمی سٹاف مستعفی ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں بھلے سے روز ریلوے حادثات ہوں ، یو نیورسٹی میں طلباء قتل ہوں ، کرپشن اور بد دیانتی کے الزامات سے چہرے سیاہ اور دامن آ لودہ ہو جا ئیں مگر ہمارے اعصاب جواب نہیں دیتے ۔یہ اقتداریئے پیارے ہوں ، متوالے ہوں یا جیا لے سبھوں کا اقتداری رویہ ایک جیسا ہی ہے۔۔