تحریر : محمد اشفاق راجا پاناما لیکس کی دوسری قسط نے مجموعی طور پر اپوزیشن کا کیس کمزور اور کرپشن مخالف تحریک چلانے والوں کی آواز کو توانا کیا ہے۔ پاناما لیکس کی دوسری قسط میں 259 افراد کی400 آف شور کمپنیوں کا پتہ چلا ہے اور ان پاکستانیوں میں ہر طبقہ فکر کے خواتین و حضرات ہیں تاہم جن کا سیاست اور سیاست دانوں سے تعلق ہے ان کی زیادہ تعداد حزب اختلاف سے متعلق ہے۔ اگرچہ ہر فرد اپنے عمل کا خود جواب دہ ہے تاہم جب مونس الٰہی کا نام بھی آئے گا اور عمران کے دوستوں کے علاوہ عبدالرحمن ملک کی ساجھے داری بھی نکل آئے گی تو صورت حال میں نمایاں تبدیلی آ جاتی ہے۔
اب تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو لڑنے جھگڑنے اور گندے کپڑے بازار میں صاف کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ جو بھی نام آئے ان کی وجہ سے سبھی بدنام ہوئے اور عوام کے ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ سب ہماری قسمت سے کھیل رہے ہیں، ان آف شور کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 50ارب ڈالر ہے، اور یہ سب رقم پاکستان اور پاکستانیوں کی ہے اگر اتنی رقوم مْلک کے اندر ہوں تو پھر آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی ضرورت کیا۔
دوسری طرف یہ بھی تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی کہ مْلک کے اندرکوئی ایسا قانون نہیں کہ یہ رقوم واپس منگوائی جا سکیں، ماسوا اس امر کے کہ یہ تحقیق ہو کہ یہ رقوم کب اور کس حوالے سے گئیں اور کیا مْلک سے باہر غیر قانونی طور پر گئی تھیں۔
National Assembly
افسوس تو یہ ہے کہ ان پاناما لیکس کو یہاں سیاسی پوائنٹ سکورنگ بنا لیا گیا، حالانکہ یہ بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہر وہ شخص جواب دہ ہے جس کا کسی بھی حوالے سے آف شور کمپنی کے مالک سے کوئی بھی تعلق بنتا ہے۔ عوامی نمائندوں اور تمام سیاسی جماعتوں کا تو جذبہ ہی مختلف ہونا چاہئے تھا۔ یہ بھی انگلینڈ کی طرح پوری سنجیدگی اور توجہ سے پارلیمینٹ میں تمام پہلوؤں پر بحث کرتے اور پھر قابل عمل حل نکالتے، یہاں تو ایک دوسرے کو گالی دینے کا وطیرہ اختیار کر لیا گیا۔ اب یہ جو دوسری قسط سامنے آئی ہے تو اس کے حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑے گا، وزیراعظم محمد نواز شریف ہوں، عمران خان یا خورشید شاہ محترم آصف علی زرداری جو باہر بیٹھے ہیں، ان سب کو قومی سوچ کا مظاہرہ کرنا ہو گا، دوسری قسط کے بعد تو اس حمام میں جتنے ننگے ہیں سب سامنے آ گئے ہیں۔
عوام نے اپنے نمائندے منتخب کئے تو ان کو یہ یقین تھا کہ یہاں غربت، بے روزگاری اور صحت کے مسائل حل ہوں گے، لیکن یہاں ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور کرسی کرسی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے، عوامی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں، ایسے میں امیر جماعت اسلامی کی تحریک زیاہ بہتر نظر آنے لگے گی کہ وہ صرف پاناما کی بات نہیں کرتے وہ ہر نوع کی کرپشن کے خلاف ”جہاد” کا نعرہ لے کر چلے ہیں، دوسروں کو ان کی پیروی کرنا ہو گی۔
اب لازم ہو گیا کہ وزیراعظم نے ”سب کا احتساب” کی بات کر کے اپنے سے شروع کرنے کی بات کی ہے تو اسے مان لیا جائے اللہ کا نام لے کر تنقیحات سے نکلیں اور احتساب کا عمل شروع کریں جو بھی زد میں آتا ہے آئے۔ پاکستان کا مال پاکستان کے عوام کی امانت ہے۔ یہ امانت لوٹانا ہو گی اب کوئی لحاظ نہیں، سب کا احتساب اور جلد ہونا چاہئے اس کے لئے مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔