تحریر : سید توقیر زیدی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی درخواستوں کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور سات نومبر(سوموار) کو ایک رکنی کمیشن بنادیا جائے گا، گزشتہ روز فریقین کی طرف سے جواب داخل کرا دیئے گئے ہیں اور کمیشن کے حوالے سے دونوں پہلے ہی یقین دہائی کرا چکے، یوں عمران خان کا مطالبہ پورا ہوگا تو وزیراعظم محمد نواز شریف کی رضا مندی بھی شامل ہے، عدالت عظمیٰ کی طرف سے کمیشن کے اعلان کے بعد ایک رکنی کمیشن ہی کارروائی کے لئے طریق کار طے کرے گا اور ٹی۔او۔آر کا فیصلہ بھی کرے گا، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد اب حالات معمول پر آجانا چاہئیں کہ یہ کارروائی ہوتی رہے گی اس عرصہ میں ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل پر غور اور عمل کیا جائے حزب اختلاف نشان دہی کرکے اپنا فرض ادا کرے اور برسر اقتدار حضرات حقیقی مسائل کے حل پر توجہ دیں، اس سلسلے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف پر اب بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ تمام قومی امور کو پارلیمنٹ میں لے کر آئیں چاہے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس مسلسل جاری رکھنا پڑیں۔
اس سلسلے میں تحریک انصاف اور خود محترم عمران خان صاحب کا فرض بھی ہے کہ وہ بھی اس پارلیمنٹ کو اہمیت دیں اور ایوان میں آکر بات کریں، نشان دہی کریں، اسی طرح جتنی بھی مجالس قائمہ ہیں وہ بھی تندہی سے کام نمٹائیں تاکہ عوام تک بھی کوئی پھل پہنچ سکے۔ کپتان کو سوچنا ہوگا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، صحت کی سہولتیں، تعلیمی مسائل اور مہنگائی جیسے اہم ترین مسائل ہیں، انہی میں کرپشن بھی ہے جو مائیکرو لیول تک زیادہ پریشان کر رہی ہے اس کے علاوہ دہرے تہرے ٹیکسوں کا معاملہ ہے ان پر بھی بات کی جانا چاہیے اور ان سب کے لئے ایوان ہی بہتر فورم ہے جہاں بات کی بھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ سرحدوں پر بھی خطرات ہیں، بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل حملے کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے سفارت کاروں پر تخریب کاری کے الزام لگائے جارہے ہیں، دہلی میں ایک سفارت کار محمود اختر کو حراست میں لے کر تشدد کیا گیا اور موت کی دھمکی دے کر مرضی کا بیان لیا گیا۔ محمود اختر واپس آئے تو پاکستان نے بھی ایک سفارت کارکو ناپسندیدہ قرار دے کر دہلی بھیج دیا، اب پاکستان نے دہلی کے اپنے سفارت خانے سے چھ اہلکار واپس بلا لئے ہیں اور یہاں ایک نیٹ ورک پکڑا گیا جو دہشت گردی اور جاسوسی میں ملوث ہے بھارتی سفارت خانے کے ان آٹھ اہل کاروں کو بھارت بھیجا جارہا ہے بلکہ خود بھارتی حکومت بھی ان کو واپس بلارہی ہے۔
Pakistan and India
یوں دونوں ممالک کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوتے جارہے ہیں مذاکرات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، ایسے میں ہماری حکومت اور تمام اپوزیشن کی توجہ بھی ان حالات کی طرف ہونا چاہیے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بیرونی دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، یہ سب باتیں بہتر طور پر پارلیمنٹ میں ہوسکتی ہیں، جہاں سوال کیا جاسکتا اور حکومت کو جواب دہ ہونا ہوتا ہے، اس سلسلے میں برسراقتدار جماعت کو بھی حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہیے سوالات کے جواب سے گریز کی بجائے سامنا کرنا چاہیے اس سے جمہوری عمل کو بہت تقویت ملے گی، قوم اب یہی توقع کرتی وہ کوئی ہنگامہ آرائی نہیں امن چاہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اب سیاسی عمل شروع کرچکی، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز رحیم یارخان کا دورہ کیا اور آج دو بجے سندھ، پنجاب کی سرحد پر ڈہرکی تحصیل کے گاؤں کے باہر جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور رہنماؤں نے کپتان کی گفتگو اور ریمارکس پر کئی اعتراض کئے ہیں جو بجا محسوس کئے گئے لیکن اگر بلاول بھٹو زرداری سے بھی غیر اخلاقی یا سنگین الزام درشت طریقے سے لگوائے جائیں گے تو یہ بھی اسی صف میں کھڑے ہوں گے پیپلز پارٹی اپنی جماعت کو واپس سیاسی دھارے اور عوام میں لانا چاہتی ہے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی خصوصاً بلاول بھٹو زرداری مہذب روئیے کا مظاہرہ کریں اور ضابطہ اخلاق کی حد کو پار نہ کریں، اعتراض اور سوال ان کا حق ہے لیکن یہ مہذب انداز سے ہونا چائیں۔
بلاول کو اس سطح سے اوپر اٹھ کر بات کرنا ہوگی کہ وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ توقع کرنا چاہیے کہ وہ آج کے جلسے میں کوئی ایسی گفتگو نہیں کریں گے جو پرویز خٹک کی یاد دلائے یا عمران خان کی پیروی ہو، یوں بھی کافی تاخیر ہو گئی اب ان کو تنظیم کا اعلان کر کے آگے بڑھنا چاہیے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی ضرورت ہے، نقطہ نظر کو عوامی بہبود کے حوالے سے اظہار کی قوت دینا اور سخت موقف اختیار کرنا بھی حق ہے لیکن تہذیب اور اخلاق کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے، اور پیپلز پارٹی کو بھی پارلیمنٹ میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے اختیار کرنا چاہیے، سردار بہادر خان، حاجی سیف اللہ، سید تابش الوری، رانا اکرام ربانی اور علامہ رحمت اللہ ارشد کو یاد کرلیں کہ ننھی منی حزب اختلاف کے ساتھ ان کی آواز بلند تھی۔