اسلام آباد (جیوڈیسک) ضابطہ کار کے مطابق تحقیقاتی کمیشن پاناما یا کسی بھی دوسرے ملک کی آف شور کمپنیوں میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کی تحقیقات کرے گا۔ تحقیقاتی کمیشن موجودہ اور سابقہ عوامی نمائندوں یا ان کے اہلخانہ کی جانب سے بینک قرضے معاف کرانے یا بدعنوانی اور رشوت کی رقوم بیرون ملک منتقل کرنے کی بھی تحقیقات کرے گا۔
کمیشن یہ بھی طے کرے گا کہ کیا آف شور کمپنیوں کے قیام یا قرض معافی میں کسی قسم کی قانون شکنی تو نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ہوا ہے تو کمیشن ذمہ داروں کا تعین اور مناسب کارروائی کی سفارش بھی کرے گا۔ ایکٹ کی دفعہ چار کے تحت تحقیقاتی کمیشن کو کسی بھی شخص، ٹیکس ماہر یا اکاؤٹنٹ کو طلب کرنے اور اس کا بیان لینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
کمیشن جو بھی ضروری دستاویز، حلفیہ شہادت اور کسی عدالت سے کوئی بھی پبلک ریکارڈ بھی طلب کر سکے گا۔ کمیشن استحقاق رکھنے والے کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے۔ کمیشن کا مقررہ کردہ افسر کسی بھی عمارت یا مقام سے دستاویز اور شواہد اکٹھے کرنے کا مجاز ہوگا۔
جبکہ کمیشن کی کارروائی کو عدالتی درجہ حاصل ہوگا۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کرنے کے پابند ہوں گے۔ کینٹ ڈویژن کو کمیشن کا سیکریٹریٹ مقرر کیا گیا ہے۔ کمیشن کو تحقیقات کی مدت کا تعین خود کرنے کا اختیار ہوگا اور وہ اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو دے گا۔