تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم یہ تسلیم کر لیجئے کہ جب ہی یورپ سے وکی لیکس اور پانامالیکس کی طرز کی کوئی عالمی سازش لیک ہوئی یا کی گئی ہے تو ہر بارہی دنیا کی عالمی شخصیات ایسی ہی پریشانیوں اور اُلجھنوں کا شکار ہوئیں ہیں جیسی کہ آج ہیں، اور ہر مرتبہ ہی ایسی سازشوں کی زد میں بہت بڑی بڑی شخصیات آتی رہی ہیں، آرہی ہیں اور آتی رہیں گیں جب تک کہ سازشی عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو جاتے ہیں اَب ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا؟؟ یقینا یہ وہ سوال ہے جس پر سب کو سوچوں کی حد عبور کر کے ایسے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا ورنہ دنیا کے سازشی عناصر گاہے بگاہے اپنی سازشوں سے عالمی شخصیات کی ذاتی اور پرسنل لائف کو کسی نہ کسی بہانے بے نقاب کرکے اِنہیں مجروح کرتے رہیں گے اور اپنا اُلو سیدھا کرتے جائیں گے، اور ایسے ہی ہر بار عالمی شہرت کی حامل شخصیات پریشان ہوتی رہیں گیں یہ جیسی کے آج پاناما پیپر لیکس کے افشاں ہونے پر پریشانیوں اور اضطراب کا شکار ہیں۔
آج جن لوگوں نے بھی پاناما پیپرز لیکس کی سازش تیار کی ہے اور اِسے زبردست پلاننگ اور منصوبہ بندی کے تحت دنیا کے سامنے لائے ہیں ، ایسے عناصر کے جو بھی مقاصد ہوں مگر پانامالیکس سے دنیا کو یہ تو لگ پتہ گیاہے کہ کون کتناغیر تمند ہے اور کون کتنابڑا……ہے کیونکہ آج جہاں پاناما پیپرز لیکس نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمرانوں، سیاستدانوں ، فلمی ستاروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی عالمی شخصیات اور اِن کے خاندان کے افراد کی ٹیکس چوری اور اِن کی ناجائز دولت و کالے دھن اور بالخصوص آف شورکمپنیوں کا پردہ چاک کرکے دنیا بھر میں ہلچل مچارکھی ہے تو وہیں پاناماپیپرز لیکس سے یہ بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ ابھی اِس کرپٹ دنیا میں بہت سے غیرتمندموجود ہیں کیونکہ پاناما پیپرلیکس نے دنیا کی باشعوراور تہذیب یافتہ اقوام کے غیرتمندوں سے استعفے دلوادیئے ہیں پاناما لیکس کے معاملے پر اِن کا اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی غیر تمند کو مرنے کے لئے چلّوبھرپانی مل گیاہے مگر اِس کے ساتھ ہیں مجھے یہ بھی کہناپڑرہاہے کہ افسوس ہے کہ ابھی دنیا میں کچھ ایسے بھی ڈھیٹ اور بڑے بڑے …..موجود ہیں جو اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کی کرپشن ، خفیہ دولت اور آف شورکمپنیاں پکڑی جانے کے باوجود بھی خود کو باعزت اور معتبرگرداننے کی ضد پر قائم ہیں۔
Sharif Family
حالانکہ آج اِن سے اور اِ ن کی فیملیز سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کے کئے جانے والے انکشافات کے بعد اَب وہ کہیں سے بھی باعزت اور معاشرے میں معتبراور گنگا نہائے ہوئے نہیں رہے ہیں، مگر پھر بھی وہ خود کو اپنے معاشرے میں زبردستی کا باعزت اور معتبر بنائے بیٹھے ہیں۔ جبکہ آج ہر طرف سے اِن کے معززومعتبر اور باعزت ہونے پر تنقیدوں کے زہریلے نشتر چلائے جارہے ہیں اور چارسو سے زوردے دے کراِنہیں یہ بھی بتایااور جتایا جارہاہے کہ خداراآج پاناما پیپر ز لیکس کے آشکارہوجانے کے بعداِن کی نیک نامی اور شہرت پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اَب جب تک یہ ٹھیک طرح قانونی طریقوں سے بنائے جانے والے کسی قانونی کمیشن یا کمیشنوں کے سامنے خود کو پیش کرکے اپنی صفائی پیش کرکے خود کو بے قصور او ربے گناہ ثابت نہیں کردیتے ہیں کم از کم یہ اُس وقت تک تو معتبراور باعزت کہلائے جانے کے ہرگزہرگز حقدار نہیں ہوسکتے ہیں اور اِس عہدے کے ہرگزاہل تصور نہیں کئے جائیں گے جس حیثیت سے یہ اِس اپنے عہدے پر فائز ہیں۔
بہرحال، اَب ہمارے یہاں یہ تو وقت ہی بتائے گاکہ پاناما پیپرزلیکس کے معاملے میں آنے والے دن ، ہفتے اور مہینے کس کے لئے کیا ثابت ہوتے ہیں؟؟اور کون ٹھہرتاہے یا جاتاہے؟؟، اِن دِنوںویسے بھی پاناما پیپرز لیکس کے انکشافات کے بعد ہمارے مُلکی ایوانوں میں زبردست قسم کی گرماگرم بحث و مباحثوں کا ایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوگیاہے اور گونوازگو، گونوازگو اور گوعمران گو ، گوعمران گو کے فلک شگاف نعروں اور شورشرابے سے ایوان مچھلی بازار بن گیاہے گویاکہ ایوانوں میں گھمسان کا رن چھڑگیاہے اورہماری قومی اسمبلی توبرسراقتدار اور حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کے ممبران کی زبانی کلامی سخت جملے بازیو ں کے حوالے سے محاذ جنگ کامنظر پیش کر رہی ہے۔
دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ذاتی اور سیاسی حوالوں سے تنقیدوں کے زہریلے نشتر چلائے جارہے ہیں اِس کے باوجود بھی سب ڈھیٹ ہیں۔ مگر اِس گرما گرمی کے ماحول کے باوجود بھی راقم الحرف کو ہمیشہ کی طرح یہی لگتاہے کہ اِس مرتبہ بھی اپوزیشن حکومت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے ، سرجھکانے اور آدب واحترام سے اپنی کمر خم کرکے حکومت کو سلام کرپیش کرنے میں مصروف ہوجائے گی۔کیونکہ آج بھی ایسا محسوس ہورہاہے اور یہی نظر آرہاہے کہ اِن دِنوں جس طرح پاناماپیپرز لیکس کو جواز بناکر ن لیگ کی حکومت کے خلاف خورشیدشاہ اور عمران خان کی محاذآرائیاں جاری ہیں اِس سے حکومت کا کچھ بھی بگڑنے اورہونے والانہیں ہے یہ دونوں مل کر بھی وزیراعظم نواز شریف اور اِن کی حکومت کا بال بیگا نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اِن دِنوں خورشید شاہ کی پارٹی تو اُس بجھنے سے پہلے ٹمٹماٹے چراغ کے مانند ہے جو اپنی حیثیت عوام الناس میں ختم کر چکی ہے۔
Imran Khan
آئندہ الیکشن 2018 سے قبل مکمل طور پربجھ کر ختم ہونے کو ہے اور دوسری پارٹی پی ٹی آئی ہے جس کاتوکام ہی حکومت مخالف ذراذراسی باتوں پر احتجاج کرنااور دھرنے دینارہ گیاہے یوں اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کا کام ہی بات بے بات احتجاج کر ناجیسے ایک مشغلہ بن گیا ہے، اور وزیراعظم میاں نوازشریف ہمیشہ کی طرح اِس مربتہ بھی پاناما پیپرز لیکس کے معاملے پربھی اِدھر اُدھر جھلانگیں مارتیں اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستانی تحریک اِنصاف اور جماعتِ اسلامی کے کرتادھرتاوں خورشید شاہ ، عمران خان اور سراج الحق کواپنی سیاسی فکروتفکراور تدبر سے چکمہ دے جائیں گے۔
اپوزیشن کی جماعتیں بغلیں جھانکتی رہ جائیں گیں یوں وزیراعظم نوازشریف پاناما پیپرز لیکس پر ریٹائرڈ جج پر مشتمل اپنے بنائے گئے خودساختہ تحقیقاتی کمیشن سے فوائد حاصل کرکے ایک بار پھر خود کو پکا سیاسی کھلاڑی ثابت کردیں گے اور اپنی اپوزیشن کی جماعتوں کو زِبرکرنے کے بعد اِنہیں کیا ’ زِبراورپیش سے زیرو ‘ بنادیں گے؟؟یوں پھر اپوزیشن والے اگلے کسی ایشوتک حکومت کے سامنے زِبراور پیش اور زیروکی ہی حالت میں رہیں گے اور ن لیگ کی حکومت بڑی چالاکی سے اپوزیشن جماعتوں کو پاناما پیپرز لیکس میں اُلجھاکر بھارتی خفیہ انجنسی را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے معاملے کو بھارتی خواہش اور مرضی و منشا کے مطابق نمٹاکر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے سامنے سُرخروہوجائے گی اور اِس طرح نوازشریف بھارت سے بغیر کسی چوں وچراں کئے بھارت کی مرضی کے مطابق را کے ایجنٹ کا معاملہ حل کرلیں گے ایسالگتاہے کہ جیسے حکمران اور اپوزیشن جماعتیں پاناما لیکس کے معاملے کو اُلجھال کر بھارتی راکے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے معاملے کو خود بانا چاہتی ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حکمران اور اپوزیشن جماعتیں عوام کو جواب دیں کہ اِنہوں نے بھارت سے کل بھوشن یادیو کے معاملے پر نرم گوشہ دلی کیوں روا رکھی ہوئی ہے؟؟؟؟؟۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com