تحریر : روہیل اکبر صبح سے ہی ٹیلی ویژن چینل پر پاناما لیکس کے حوالہ سے گرما گرم بیانات چل رہے تھے کیونکہ اب اس کیس پر بحث ختم اور سب فیصلے کے انتظار میں تھے کہ اچانک ایک بار پھرلاہور کا اہم علاقہ ڈیفنس دھماکے سے گونج اٹھا یہ دھماکہ مال روڈ دھماکے کے 11روز بعد ڈیفنس کی وائی بلاک مارکیٹ میں ہوا جبکہ گذشتہ تین روز سے لاہور کا اہم سرکاری سروسزہسپتال بند پڑا ہواہے شہری اپنے پیاروں کے علاج کے لیے ترس رہے ہیں عوام کو زندہ درگور کرنا ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے عوام کے ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آنے والے اپنے سر درد کے علاج کے لیے بھی باہر بھاگ جاتے ہیں اور جن کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں انہیں قصائیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے کرپشن ،چور بازاری ،لوٹ مار اور اقربا پروری نے پاکستان کو مسائلستان بنادیا ہے غریب دن بدن غریب تر ہوتا جارہا ہے اور سرمایہ دار دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور اسی لوٹ مار کی وجہ سے ہمارے سرکاری ادارے بھی تباہ ہوچکے ہیں جبکہ ہمارے سرکاری ہسپتال تو عقوبت خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہسپتالوں کو اپنی جاگیر بنا لیا ہے اور وہاں پر کام کرنے والے درجہ چہارم کے ملازمین انکے ہاری بنے ہوئے ہیں عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ خود ساختہ بدمعاش جب چاہتے ہیں مریض کو چیک کرتے ہیں جب چاہتے ہیں ہسپتال کو بند کرکے ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اپنی مرضی سے آتے اور جاتے ہیں مریض کو ایسے چیک کرتے ہیں جیسے ہسپتال اور ادویات انکے دادا کی ملکیت ہوں نوکری لینے کے لیے مریضوں کی خدمت کے وعدے کرتے نہیں تھکتے اور نوکری ملنے کے بعد مریض کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے احساس اور احترام انسانیت کامادہ نکال کر بے حسی اور لوٹ مار کا لبادہ اوڑھ لینے والے جب چاہتے ہیں ہسپتال کی ایمرجنسی بند کرکے اپنے پیشے سے غداری کرنا شروع کردیتے ہیں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے۔
جب حکومت کمزور ہو اور قانون شکن طاقتور یہی وجہ ہے کہ تین دن سے مریض خوار ہورہے ہیں اور حکومت ان غنڈہ گرد عناصر سے ایسے ڈر کربھاگ رہی ہے جیسے چور دور سے ہی پولیس والے کو دیکھ کر راستہ بدل لیتا ہے کیونکہ اسکے اندر کا چور اسے ڈرنے پر مجبور کرتا ہے کچھ ایسا ہی حال ہماری حکومت کا ہوچکا ہے جو کسی بھی غلط کام کو روکنے کی بجائے ان غنڈہ گرد عناصر سے ڈر کرراستہ ہی بدل لیتی ہے وزیراعلی ،صحت کے دو وزیر وں سمیت لاتعداد مشیروں اور انکے حواریوں میں سے کسی ایک نے بھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کو پیار یا سختی سے ختم کروانے کی کوشش نہیں کی ہر حکومتی عہدیدار خادم اعلی کے حکم کا پابند ہے جب تک وہاں سے انگلی نہیں اٹھتی اس وقت تک کام والی گاڑی کا پہیہ نہیں چلتا برائے نام وزیر اور ربڑا سٹیمپ اسمبلی صرف حکمرانوں کے دفاع پر معمور ہوچکی ہے۔
Punjab Assembly
پنجاب اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس مال روڈ پر جلسے، جلوس،دھرنے اور احتجاج پر ہائیکورٹ نے پابندی لگارکھی ہے مگر حکومت کی خاموشی کی وجہ سے وہاں پر آئے روز دھرنے ،جلسے اور جلوس ہوتے رہتے ہیں جنکا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا جس میں صحافی ،پولیس اہلکاروں سمیت فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے نمائدے زخمی اور شہید ہوئے حکمرانوں کی اس سے بڑی بددیانتی اور کیاہوگی کہ جب بھی کسی جگہ احتجاج یا لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو خادم اعلی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ غائب ہوجاتے ہیں حالات بہت زیادہ خراب ہوجائیں تو پھر کمیٹی بنادی جاتی ہے کمیٹی کمیٹی کے اس کھیل میں وہ کھیل کھیلا جاتا ہے جو اکثر ہمارے گلی محلوں میں شہریوں کی کمیٹیاں کھانے والے کرتے ہیں ۔ہمارے حکمران بھی کمیٹیاں بنانے اور پھر انہیں ہضم کرنے کے ماہرہوچکے ہیں یہی وجہ ہے آج تک کسی بھی کمیٹی نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا اگرکوئی فیصلہ دیا بھی ہے تو گول مول سا جس میں کسی کا نقصان ہوا نہ فائدہ مگر حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد ضرور حاصل کیے۔
انہی مقاصد کی بدولت آج ملک میں کوئی بھی ادارہ درست سمت میں نہیں جارہا بلکہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے مگر مچھوں نے قومی اداروں کی چولیں تک ہلاکررکھ دی ہیںیہ مگر مچھ حکومتی سرپرستی میں عوام کی تذلیل کرنے میں مصروف ہیں ہمارے تھانے بھی حکمرانوں کی طرز پر لوٹ مار میں مصروف ہیں ایک طرف مک مکا کی سیاست ہے تو دوسری طرف بھی مک مکا ہی چل رہا ہے غریب انسان ہر طرف رگڑے میں ہے کہیں بم دھماکے ہیں تو کہیں بے روزگاری اور لاقانونیت ہے ہمارے دور دراز کے گاؤں اور شہر آج بھی صاف پانی ،بہتر علاج اور اچھی تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران بے حسی کی علامت بنے بیٹھے ہیں۔
غریب عوام ہی بم دھماکوں میں سڑکوں پراور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لاپرواہی سے مررہی ہے کوئی کسی کا پرسان حال نہیں جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہ اسی کے نشہ میں دوسروں کا گلا کاٹ رہا ہے مگر ان تمام پابندیوں کے باوجود ڈی جی انٹی کرپشن جناب مظفر علی رانجھا کی عظمت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہوں جنہوں نے کرپشن کے خلاف کام شروع کررکھا ہے اور ڈاکٹروں نے بھی انہی کے کام کو روکنے کے لیے ہڑتال کررکھی ہے پاکستان کی ایک نامور خاتون وکیل عائشہ خان کہتی ہے کہ اس وقت ٹارگٹ پر سب سے پہلے صحافی ہیں دوسرے نمبر پر وکیل ہیں تیسرے نمبر پر ہماری فورسز ہیں اور ہماری حکومت سورہی ہے جبکہ غریب ،محنت کش اور درددل رکھنے والے پاکستانی اس وقت بے یارومددگار ہیں کس سے حساب مانگیں اور جائیں تو جائیں کہاں؟۔