تحریر : عبدالرزاق جب سے پاناما پیپرز منظر عام پر آئے ہیں پوری دنیا میں اک ہنگامہ برپا ہے ۔متعدد ممالک کے سربراہان مملکت اور وزیر پاناما پیپرز کی زد میں آنے کی پاداش میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی پاناما پیپرز نے عوامی اور سیاسی سطح پر ہلچل مچا رکھی ہے ۔یاد رہے تحریک انصاف کے سربراہ تواتر سے شریف خاندان پر یہ الزامات دہراتے رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے حقیقی اثاثے ڈکلیر نہیں کیے ۔ان کی اس بات پر نہ تو قوم نے کوئی خاطر خواہ توجہ دی اور نہ ہی میڈیا نے ان کے اس الزام کو خصوصی پذیرائی بخشی ۔ عمران خان بار بار حسین نواز کی لندن پراپرٹی اور کمپنیوں کا تذکرہ کرتے رہے لیکن ن لیگ کی جانب سے ہمیشہ اس پراپرٹی اور کمپنیوں کے حوالے سے غیر مبہم جواب منظر عام پر آتا رہا اور ن لیگ یہ تاثر دیتی رہی کہ عمران خان سیاسی مخاصمت میں الزام تراشی سے کام لے رہے ہیں۔
لیکن اب جب سے وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کا نام پاناما پیپرز میں آیا ہے اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے اور بالخصوص نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور الزامات کی شفاف تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دینے پر زور دیا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس بات پر ڈٹے ہوے ہیں کہ کمیشن چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہونا چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کی خواہشمند دکھائی دیتی ہے ۔لہٰذا ان دنوں پانامہ پیپرز کی آڑ میں سیاست چمکانے کا عمل شدو مد سے جاری ہے اور کون اس میدان میں کس حد تک سرخرو ہو گا اس کا بہتر فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا تاہم میری دانست میں پاکستان کی حد تک پانامہ پیپرز کا معاملہ پانی کا بلبلہ ہی ثابت ہو گا۔چند روزہ باہمی سیاسی ٹکراو کے بعد اک ڈمی سا کمیشن تشکیل دے دیا جائے گا جو کئی مہینوں تک قوم اور میڈیا کا وقت ضائع کرنے کے علاوہ قومی سرمائے کے ضیاع کا بھی سبب بنے گا اور بالآخر فیصلہ آئے گا کہ چونکہ میاں نواز شریف کا نام پاناما پیپرز میں نہیں ہے ان کی اولاد کا ہے اس لیے وہ بری الذمہ ہیں ۔
Prime Minister
ان کا دامن صاف ہے اور وہ اپنے بچوں کے فعل کے ذمہ دار نہیں ہیں۔یوں پانامہ پیپرز کی یہ داستان قصہ پارینہ بن کر تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو جائے گی ۔اس داستان کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ قوم کئی دنوں تک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہے گی ۔ٹی وی چینلز پر لمحہ بہ لمحہ بریکنگ نیوز کی برسات رواں رہے گی ۔بچے،جوان،بوڑھے اور خواتین سبھی اس ٹوپی ڈرامہ کو نہایت انہماک سے دیکھ رہے ہوں گے اور آخر کار نتیجہ وہی برآمد ہو گا جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔یاد رہے پاناما پیپرز میں لگ بھگ 200پاکستانیوں کا نام شامل ہے جنہوں نے اپنا سرمایہ چھپا رکھا ہے لیکن میرا سوال میاں نواز شریف سے صرف اتنا سا ہے۔ جناب اس بات سے قطع نظر کہ آپ کے صاحبزادوں کا وہ سرمایہ جو بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی صورت موجود ہے جائز ہے یا ناجائز ہے اور وہ کس طرح بیرون ملک پہنچا ۔ اس کی حقیقی صورتحال تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گی لیکن یہ سرمایہ بیرون ملک موجود کیوں ہے ۔آپ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ آپ کی اور آپکی اولاد کی پہچان پاکستان ہے تو پھر کیوں آپ نے یا آپ کی اولاد نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز کی معاشی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے اور ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے اور ملک کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قومی ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ان حالات میں آپ کی اولاد اربوں ڈالرز بیرون ملک انویسٹ کر رہی ہے ۔ہندوستان سے لے کر آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں آپ کی سرمایہ کاری کے چرچے ہیں۔میاں صاحب آپ نے وطن عزیز کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا ۔ آپ بتائیے کس منہ سے آپ بیرون ملک مقیم پاکستانیوںیا دیگر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیں گے ۔آپ کس طرح دوسرے ممالک کو متاثر کریں گے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک پرکشش ملک ہے ۔
Pakistan
آپ کس طرح سرمایہ کاروں کو مطمن کریں گے کہ ان کا سرمایہ پاکستان میں محفوظ ہے ۔ آپ کس طرح عالمی طاقتوں اور مہذب ملکوں کے ایوانوں میں شان بے نیازی سے داخل ہوں گے ۔ میاں صاحب اگرچہ وہ ممالک غیر مسلم ہی سہی لیکن اخلاقی قدروں میں ہم سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کیسے آپ کو پذیرائی بخشیں گے۔میری سمجھ سے تو یہ بات بالاتر ہے ۔ اگرچہ پاکستان میں تو آپ اپنے حواریوں کی چالاکیوں اور مہارت کے بل بوتے پراپنی کرسی محفوظ کر لیں گے لیکن ان ممالک میں آپ کو کس نظر سے دیکھا جائے گا جن ممالک کے سربراہان مملکت الزامات کی گرد اڑتے ہی مستعفی ہو چکے ہیں۔وہ کیسے آپ کی عزت افزائی کریں گے ۔ لہٰذا میاں صاحب مسند اقتدار سے الگ ہونے کا حتمی فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے ۔امید ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو گا ۔