پانامہ، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی

Imran khan and Siraj ul Haq

Imran khan and Siraj ul Haq

تحریر : شہزاد سلیم عباسی
دوران سماعت سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ اگر آرٹیکل62،63 لگا تو سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا، جہاں جماعت اسلامی کے لیے حوصلہ افزاء بیان ہے وہاں پانامہ معاملے پر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کی ڈیمانڈ کرنے والی پی ٹی آئی کو یہ بات بخوبی جان لینی چاہیے کہ پانامہ پر شور تو ٹھیک ہے لیکن آف شور کمپنیوں اور مخفی اثاثہ جات کے حوالے سے آپکے دامن پر بھی کچھ داغ موجود ہیں جو کہ دھلنا ازحد ضروری ہیں۔پانامہ کے خلاف عمران خان اور سراج الحق پورے آب و تاب سے مسلم لیگ ن کے مظلومین پر اپنے طنز و مزاح اور الزامات و احتمالات کے نشتر برسا رہے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے خلاف اپنی آوازیں ببانگ دہل بلند کررہے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں اور کورٹ کچہریاں پانامہ کیس کو مزید دلچسپ بنارہی ہیں اس کے علاوہ دونوں پارٹیاں،میڈیاوسوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے ذریعے خوب دھومیں مچارہی ہیں۔خصوصا عمران خان تو اپنے فینز کو طفل تسلیاں سنا کر اگلے الیکشن میں فتح کے راگ الاپ رہے ہیں،جبکہ عملاپانامہ کو ایشو بنا کر نواز شریف اور حکومت کو چلتا کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں، لیکن آئوٹ کم”ہنوز دلی دوراست” کی صورت ہی نظر آتا ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے بہت ہی نازک وقت اور انتہائی نازک موڑ پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کوچو ہے بلی والے کھیل میں ہمہ تن گوش کر دیا ہے ۔سونے پر سہاگایہ کہ ہم سب بشمول میڈیاپانامہ کیس کے پیچھے لگ کر ”ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا” کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں، کیونکہ روزانہ نہار منہ ججزحضرات کا درشن کر نے اور کورے ثبوتوں کے ساتھ عدالت حاضری دینے کا کچھ ماحاصل نہیں۔ویسے بھی اب کالے دھن کو سفید کرنے والی ماہر جماعتیں پلی بارگین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، کمپنی آرڈیننس ،میثاق جمہوریت اور نظریہ ضرورت جیسی ذومعنی اصطلاحات متعارف کرا کرنئی نسل کو تحفے میں دینے کا فیصلہ کر چکی ہیںاور عدالتیں اور ادارے انہیں من وعن تسلیم و تعمیل کرنے پر مجبور ہیں نتیجتا ہمارا جمہوری نظام غیر مستحکم اورٹوٹ پھوٹ کا شکار نظرآتا ہے، بقول شاعر: یہ راز اب کوئی راز نہیںسب اہل گلستان جان گئے ۔۔۔۔ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا۔

39 سے زائد اسلامی ممالک کے متوقع ملٹری چیف و ہیپ راحیل شریف اور 2016 کی خوفناک شہ سرخیوں اور سیاہ و سفید بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد 2017 کا آغاز کوئی جاندار دیکھائی نہیں دیا اورپانامہ کی آنیاں جانیاں اور ہنگامہ خیزیاں بھی قدرے ماند پڑھنے لگیں ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر پانامہ کا معاملہ حل ہو جائے تو ملک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے لیکن ایسا کون ہونے دیگا کہ اس میں ہر طبقہ فکر، ہر ادارہ اور تقریبا پاکستا ن کے چاروں ستونوں کے محافظوں کے ہاتھ خوب رنگے ہیں۔پانامہ 2017 میں بھی ہاٹ ایشو رہے گالیکن نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق آنے والے الیکشن ،پانامہ پر شور شرابے سے زیادہ مضبوط میڈیا سیل سے جیتے جائیں گے جس پارٹی کا میڈیا جتنا جدت پسند اور فاسٹ ہو گا اتنا ہی اسکے جیتنے کے مواقع زیادہ ہونگے۔ اس لیے ایک طرف جہاں مسلم لیگ ن نے سرکاری سیف سائیڈ رکھنے کے لیے اپنی میڈیا ٹیم میں خاطر خواہ اضافہ کرکے اپنی قانون و مشاورتی ٹیم کو ازسر نو جائزے کے بعد تبدیل کر دیا ہے۔

PML N

PML N

مریم اورنگزیب، طلال چوہدری، دانیال عزیر، طارق فضل چوہدری، محمد زیبر، سعد رفیق ، میاں منان اور کئی دوسرے نامور میڈیا ماہرین کی نہایت ضخیم ٹیم تشکیل دی ہے جو ہر محاذ پر حکومتی موقف کا دفاع کرتی نظر آتی ہے ، تو دوسری طرف وہاں پی ٹی آئی نے بھی اپنی قانونی و مشاورتی ٹیموںمیں تغیر و تبدل کیساتھ میڈیا میں15 سے زائد لوگوں کو پارٹی کا فل ٹائم ترجمان مقرر کر دیا ہے جو پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور پارٹی چیئرمین کے دفاع کے لے فعال کردار ادار کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے تازہ دم دستے عدالتوں کے سامنے میڈیا کچہری لگانے کا اہتمام کرتے ہیں اور حق و باطل کاآوازہ بلند کرتے ہیں۔

جبکہ جماعت اسلامی اس محاذ پر کافی کمزور دیکھائی دیتی ہے ۔جماعت اسلامی میں پانچ بنیادی کمزوریاں ہیں،(1 ) جماعت اسلامی کے پاس کوئی خاص لیگل ٹیم نہیں ہے جو کہ انکا مقدمات درست سمت میں لڑ سکے ۔(2) جماعت اسلامی کے پاس کوئی خاص میڈیا ٹیم نہیں ہے جو میڈیاکے سامنے انکے موقف کابھرپور دفاع کرسکے۔(3) جماعت اسلامی اپنا بے داغ ماضی ہونے کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ اور لبرلز کی طرف سے مذہبی انتہاپسندی کا لیبل لگنے کی وجہ سے الیکشن میں صفر ہو جاتے ہیں (4) الیکشن کے وقت جماعت اسلامی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ہمیشہ دھوکا کھا جاتی ہیں جو کہ انکی شکست کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔(5) جماعت اسلامی کو ملک کے ہر ایشو کو اپنا ایشو بناکر اس شعر کا مصداق بننے کا جنون سوار رہتاہے : خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر۔۔۔۔۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔

اس لیے اگرجماعت اسلامی چاہے تو کراچی کے علاوہ 2018ء کے عام انتخابات میں تیسری بڑی پارٹی کے لئے کوالیفائی کر سکتی ہے لیکن اسے پچھلے 68 سال والی کوششوں اور بے ثمر محنتوں سے ہٹ کر ایک نئے انداز مین الیکشن میں آنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ۔پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو چاہیے کہ مختلف محاذوں پر لڑنے کے لیے اپنی مختلف ٹیمیں تشکیل دیں جو عدالت، میڈیا ،الیکشن رابطہ مہم اور حلقے کے کاموں کو الگ الگ لے کر چلیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرنا ہونگی ، ورنہ یہ بات تو طہ ہے کہ خیبر پی کے ہر بار نئی پارٹی کو آزماتاہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنی سیاسی جدوجہد پر پانی پھیر دیں اور نواز شریف خیبر پختون خواہ میں تگڑی اپوزیشن بنا کردونوں کو ناک آئوٹ کر دے یا کم ازکم خود صوبے کامضبوط اسٹیک ہولڈر بن جائے!

Shahzad Saleem Abbasi

Shahzad Saleem Abbasi

تحریر : شہزاد سلیم عباسی
0333-31 33 245
shahzadsaleemabbasi@gmail.com