تحریر : عقیل خان آف جمبر ”مُک گیا پانامہ شو، گو نواز گو” اس نعرے کے مطابق پانامہ کیس کا فیصلہ عوام کے سامنے آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔واضح رہے کہ اس 5 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجازافضل خان، جسٹس آصف سعید کھوسہ،جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وزیراعظم عہدہ چھوڑ دیں، صدر مملکت معاملے کو قانون کے مطابق دیکھیں، جمہوری عمل جاری رکھا جائے۔اس کے علاوہ عدالت نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، حسن، حسین، مریم ،صفدر اور اسحق ڈار کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
اس فیصلے کے بعد ایک بار پھر منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت معیاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی وزیراعظم نے اپنی مدت معیاد پوری نہیں کی۔ قیام پاکستان سے آج تک 17وزیراعظم آئے مگر ہر وزیراعظم کو کسی نہ کسی بہانے سے کرسی سے اتار دیا گیا۔ میاں نوازشریف تین بار اقتدار میں آئے اور تینوںبار ان کو مدت پوری ہونے سے پہلے فارغ کردیا گیا۔ پہلی بار جب یہ وزیر اعظم بنے تو اس کے وقت کے صدر (غلام اسحاق خاں)نے ان کو فارغ کیا ، دوسری بار ان کی حکومت آئی تو پھر فوجی جرنیل (پرویز مشرف)نے اقتدار پر قبضہ کرکے نہ صرف انکی حکومت پر قبضہ کیا بلکہ اس کو ملک بدر بھی کردیا اور اب جب تیسری باران کی حکومت آئی تو اس بار عدلیہ نے ان کی وزارت عظمیٰ کی قربانی لے لی۔
سیاست ایسا میدان ہے کہ جس میں ہر کوئی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے کوئی بھی سیاستدان خواہ وہ قومی لیڈر ہیں یا مقامی ،اپنی الیکشن مہم کے دوران اتنے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور جب اقتدار میںآتے ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کو بہت بلند وبانگ دعوے کرتا ہم سب نے سنا ہے مگر عملی کام کرتے بہت کم کو دیکھا ہے۔ پاکستان کے بہت سے سیاستدانوں پر کرپشن کے مقدمے بھی چل رہے ہیں مگروہ فائلیں مٹی کی گرد میں دبی ہوئی ہیں ۔ اتنے بڑے بڑے کرپشن کے کیس عوام کے سامنے پیش کیے گئے مگر سب کیسزپر چار دن شورشرابا کرکے پھر فائلیں نیچے دبا دی گئیں۔ آج تک کسی سیاستدان سے کرپشن کے پیسوں کی وصولی نہیں ہوئی۔
میاں نوازشریف کا پانامہ والاکیس کافی عرصہ چلنے کے بعد 28جولائی کو اختتام پذیر ہوا۔ نوازشریف کوآرٹیکل 62/63 کے مطابق ناہل تو قرار دے دیا مگر کرپشن پر کوئی فیصلہ نہیں دیا بلکہ ان پر جو کرپشن کے کیس تھے وہ نیب کے حوالے کرکے انصاف کا بول بالا کردیا۔ نیب کے پاس تو پہلے ہی بہت سے کیسز پڑے ہوئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا میں نے تو پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ یہ لڑائی کرپشن کی نہیں بلکہ اقتدار کی ہے۔
پانامہ کا فیصلہ آنے کے بعدجماعت اسلامی اس کیس کا کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتی ہے اور تحریک انصاف اپنے نام۔جس وقت نوازشریف کو ناہل قرار دیا گیا اس کے فوراً بعد اپوزیشن جماعتوں کے کارکن مٹھائی کھاتے اور کھلاتے نظر آئے۔ وہ لوگ جو کبھی مسجد نماز کے لیے نہیں جاتے انہیں سڑکوں پر سجدے کرتے دکھایا گیا۔ میراان لوگوں سے سوال ہے جو یہ اتنا خوشیاں منا رہے ہیں کہ کیا نوازشریف کی کرپشن کے پیسے واپس آگئے یا ہمارے ملک میں دودھ کی نہریں بہہ نکلیں۔ ہماری عوام کو بھولنے کی عادت ہے میں یاد کراتا چلوں پچھلے دور حکومت میں گیلانی اور راجہ کی قربانی لی گئی اس وقت بھی اپوزیشن والے بہت خوش تھے مٹھائیاں اس وقت بھی تقسیم ہوئی تھیں مگر آج اس کو بات گزرے کتنے سال کا عرصہ ہوگیا مگر کیا ان کیسز میں کسی کو سزا ہوئی یا ان سے کرپشن کی مد میں کوئی وصولی کی گئی ہے آج تک؟ کچھ بھی نہیں یہ سب کرسی کا چکر ہے ۔ دوسرے ملکوں کو ہم پر ہنسنے کا موقع دیا جاتا ہے۔جب ہم اپنے آپ کو جمہوری ملک کہتے ہیں تو پھر جمہوریت کا گلا کون اور کیوں دباتا ہے۔ اگر عوام ہی سپرپاور ہے تو پھر کبھی صدر، کبھی آرمی اور کبھی عدلیہ کیوں عوام کی طاقت کو کچلتی ہے۔
عدلیہ کے فیصلے کے بعد عمران خان سمیت وہ لوگ جن پر کیسز چل رہے ہیںان میں وہ گرج چمک نظر نہیں آئی جو ان کی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جیسا دھیما لہجہ اپنایا وہ سب نے دیکھا ہے۔ اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرے کہ بظاہر تمام سیاستدان عدلیہ کے فیصلے کو سراہا رہے ہیں مگر حقیقت میں سب اندر ہی اندرڈر بھی رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ اب عدلیہ ان کو بھی نہیں چھوڑے گی۔ جوعدلیہ حاکم وقت کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے تو پھر دوسروں لوگوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہوگا؟ جو چور سیاستدان ہیں ان کے چہرے کی بناوٹ بتا دیتی ہے کہ وہ اندر سے کتنے ٹوٹ چکے ہیں۔
بہت سے سیاستدان جن کے خلاف اس وقت عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں ان کو اپنی فکر لگ گئی ہے۔ صادق اور امین پرپورانہ اترنے والے سیاستدانوں کے خلاف بہت جلد اور لوگ بھی میدان میں اترنے والے ہیں۔ اگر عدلیہ کا فیصلہ دیکھا جائے تو اس میں صادق و امین کو سامنے رکھتے ہوئے نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو پھر یہ سلسلہ اب یہاں تھمنا نہیں چاہیے۔ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں کو بھی ان کے انجام تک پہنچا یا جائے۔ سیاستدانوں نے عوام کو مذاق سمجھا ہوا ہے جب دل چاہا جلسوں میں ایک دوسرے پر بڑے بڑے الزام لگا کر چلے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہیں تو سب ایک ہوتے ہیں۔ آج تک کسی آنے والے نے جانے والے کی کرپشن عوام کے سامنے نہیں رکھی؟آج ایک ایم پی اے جو اپنے اثاثے لاکھوں میں بتا تا ہے پانچ سال اقتدار میں رہ کر کیسے کروڑوں کا مالک بن جاتا ہے؟ کیسے کئی مربع زمینوںکے مالک بن جاتے ہیں؟
عدلیہ کو چاہیے کہ اب کسی رٹ کے منتظر نہ رہیں بلکہ از خود نوٹس لیکران کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھڑائیں جو ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اور نواز شریف کے بعد نااہل لوگوں کی طویل لسٹ عوام کے سامنے جلد ازجلد لائے تاکہ یہ شک یقین میں نہ بدلے کہ میاں نواز شریف سے انتقام لیا گیا ہے۔