تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی سے قطعہ نظر آج قوم کا ہر ذی شعور فردپاکستان میں احتساب کا موثر نظام چاہتا ہے ۔ملکی وقار اور سا لمیت کو نقصان پہنچانے والے اور ملکی دولت لوٹنے والے ہر شخص کا بلاامتیاز احتساب، خواہ وہ کوئی سیاست دان ہو ، جج ہو ، جرنیل ہو ، بیوروکریٹ ہو یا کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتا ہو۔ اور بلاامتیاز احتساب کے عمل میں پہلا قطرہ یا پہلا قربانی کا بکرا چاہے کوئی بنے عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ مملکت خداداد پاکستان میں شروع ہی سے احتساب کا سسٹم انتہائی کمزرور ہا ہے، جس کی وجہ سے یہاں برسر اقتدار آنے والے ملکی دولت بے دردی سے لوٹ کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے، اور اس طرح بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک نت نئے بحرانوں، معاشی تنزلی اور انحطاط کا شکاررہا۔ یہاں قرضے میں ڈوبے عوام بھوک و افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور، جبکہ حکمران طبقہ عوامی مسائل سے بے خبر اپنی عیاشیوں میں بد مست رہا، ان کی میگاکرپشن، بد عنوانی اور سفارش کے کلچر نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
حکمرانوں کی جانب سے کرپشن کے آگے بند باندھ کراس کی راہیں مسدود کرنے کی بجائے ہر نئے دور میں ان کو مذید وسعتیں دی گئی ، یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر سرکاری شعبہ جات میں بدعنوان لوگ پیدا ہوتے رہے اور آج ان بدعنوان لوگوں کی بھرمار نظر آتی ہے، اگر کچھ نظر نہیں آتا تو حکمرانوں اور کرپشن کرنے والوں کو نظر نہیں آتا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ملک سود در سود قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواہے ، پیپلز پارٹی کی حکومت کے اقتدار میںآنے سے قبل تک حکومتوں نے جو قرض حاصل کئے تھے ان کی مجموعی مقدار سے زیادہ پانچ سال میں قرض حاصل کیا گیا، اور اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی قرضوں کے حصول میں پیپلز پارٹی کے دور کا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ قرض حکومت میںآنے والے لوگ اس ملک میں حاصل کر رہے ہیں جس ملک سے سیاستدان، بیورو کریٹ، تاجر، سرمایہ کار اور دیگر حلقوں کے لوگ کئی سو کھرب ڈالر کا سرمایہ بیرون ملک لے گئے جس میں کالے دھن کی تعداد اور مقدار زیادہ ہے۔ اگر یہ دولت پاکستان میں واپس آجائے تو نہ صرف سارے قرضے ادا ہو جائیں بلکہ ملک خوش حال ہو اور غربت و افلاس کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے ۔ آج ہر ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ لوگ غربت کے باعث کہیں انفرادی اور کہیں اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں۔
بے روزگاری ، غربت، مہنگائی، بجلی اور گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ ، کرپشن، بدعنوانی ، اور اقرباء پروری نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، بیس کروڑ عوام اکیسویں صدی میں بھی حقیقی بنیادی حقوق سے یکسر محروم اور جانوروں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان بیس کروڑ لوگوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ انہیں کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی ، پینے کے لئے صاف پانی،رہنے کے لئے مناسب رہائش نصیب نہیں۔ ان کروڑوں خاندانوں کے افراد ہر سال کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث موت کی نیند سو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر کو صحت اور ہسپتال کی مناسب سہولتیں میسر نہیں۔ ان گھمبیر حالات میں ملک میں پروان چڑھی کرپشن سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے مگر پانامہ لیکس نے بہت سے لوگوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کی کھربوں ڈالرز کی آ ف شور کمپنیاں سب کے سامنے نمایاں کردیں، جوکہ ٹیکس بچانے کیلئے کھولی گئیں تھیں، بعض سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے قومی خزانے کو لوٹ کر بھی آف شور کمپنیاں بنائیں۔
پاناما لیکس سکینڈل سے کچھ لوگوں کی جائز اور ناجائز سرمائے سے بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں اور شروع کئے گئے کاروباروں سے بھی پردہ اٹھا ہے، اس سے قبل سوئس بنکوں میں موجود پاکستانیوں کے دو سو ارب کی موجودگی کے انکشاف پر موجودہ حکومت نے یہ رقوم پاکستان لانے کا اعلان کیا تھا مگر اس پر ہنوز عمل نہیں ہوسکا۔ جس طرح ملک میں کرپشن کی رات سیاہ ترین ہوچکی ہے اس سے لگتا ہے کہ اب پانامہ کیس سے ملک میں روشن صبح ، اور موثر احتساب کا آغاز ہوکر رہے گا جس کی بدولت ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے اپنے ادارے سے کرپٹ لوگوں کے احتساب کا سلسلہ شروع کر کے پورے ملک میں احتساب کے عمل کے آغاز کا پیغام دیاتھا، اور آج بیس کروڑ عوام پاکستان کی نظریں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت پر جمی ہوئی ہیں۔عوام پاکستان توقع کررہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ یقیناًایک ایسا صاف اورشفاف الیکٹرول سسٹم رائج کر دئے گی کہ آئندہ کوئی خائن اور بد دیانت شخص اقتدار کے ایوانوں تک نہ پہنچ سکے گا۔
آج آئین وقانون کی بالادستی کے غیر متزلزل و پختہ عزم اور یقین و ایقان کے جذبوں سے لیس ہماری عدالتیں اگر اپنی یقینی موجودگی کا اظہار کر رہی ہیں تو یہ سنہری موقع عوام کو غنیمت جاننا چاہئے، اور احتساب کے سسٹم میں معاون بننے والوں پر تنقید کی بجائے عدلیہ کے مثالی کردار کو سراہنا چاہئے تاکہ مستقبل میں بھی احتساب کا یہ سلسلہ جاری رہے ، بلاشبہ ملک چاہے کتنا طاقتور کیوں نہ ہو معتبر عدالتوں کے بغیر اپنا وجود برقرارنہیں رکھ سکتا، مہذب اور جمہوری معاشرے میں شخصیات نہیں بلکہ ملکی وقار اور ادارے اہم ترین ہوتے ہیں۔ پاکستان سپریم کورٹ کی تشکیل شدہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد پانامہ کیس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے جس کے فیصلے کا نہ صرف حکمران و اپوزیشن جماعت بلکہ پوری قوم کو انتظار ہے ، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکمران دودھ کے دھلے ہیں تو پانامہ پر ہنگامہ کیوں۔۔۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل :ra03009230033@gmail.com