تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل گزشتہ روز بیس اپریل کو مقررہ وقت دو بجے کے قریب پانامہ لیکس کا فیصلہ سنایا گیا۔جس میں پی ٹی آئی، شیخ رشید، اور جماعت اسلامی کی اس استدعا کو مسترد کر دیا گیا کہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جائے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ تحریک انصاف ،عوامی مسلم لیگ ،اور جماعت اسلامی نے جو دستاویزات پیش کی ہیں وہ تحقیق طلب ہیں ان کی تحقیق کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔اور اسے تحقیقات مکمل کرنے کے لئے دو ماہ کا وقت دیا جائے۔عدالتی فیصلہ پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔فیصلہ میں کرائم سیریز مویز اور ناولز کے حوالے دئیے گئے۔جن کو ماہر قانون عاصمہ جہانگیر نے تنقید کا نشانہ بنایا۔اس تاریخی فیصلہ میں دو ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو بے ایمان اور جھوٹا گردانتے ہوئے نااہل قرار دے دیا۔ ٹربیونل کے باقی تین ججز نے خدشات کی بنا پر معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیاتاہم تحقیقات پر پانچوں ججز نے اتفاق کیا۔
پانچوں ججز نے شریف برادران کی طرف سے پیش کئے گئے شواہد کو بے بنیاد قرار دے دیا۔یہاں تک کہ شہرت پانے والے قطری خط کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جس میں مختلف اداروں کے نمائندے شامل تفتیش ہونگے۔آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی اس ٹیم کا حصہ ہوگا۔سینئر و نامور قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرف سے جے آئی ٹی وآئی ایس آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو انتہائی نامناسب ہے۔جس کے جواب میں جنرل آصف غفور نے کہا کہ مسلح افواج کی ساکھ کسی قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے۔قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فیصلہ کے فوری بعدتمام فریقین کی کیفیت بھی مختلف تھی۔فیصلہ کے فوری بعد حکومت کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا مٹھائیاں بانٹی گئیں بھنگڑے ڈالے گئے(نہ جانے کس خوشی کے؟)۔دوسری طرف اپوزیشن میں موجود باقی فریقین پی ٹی آئی اور دوسری جماعتیں فیصلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مصروف ہو گئیں۔مگر سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں نے سخت رویا اختیار کیا ۔کسی نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ سنا دیا ،کسی نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا دیا ،یہاں تک کے ایسے کمنٹس بھی ملے کہ تین ججز جیو اور دو اے آر وائے دیکھتے ہیں۔
کسی نے کہا کھسرا پیدا ہوا۔سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے طرح طرح کے طعنے کسے گئے۔جیسے ہی کچھ گھنٹے گزرے قانونی ماہرین نے تبصرے شروع و مکمل کئے تو لوگوں کو فیصلے کی نوعیت کا اندازہ ہونا شروع ہوگیا(جس کا کام اسی کو ساجھے)۔اور یہ جاننے میں کامیاب ہوئے کہ درحقیقت کس کی فتح اور کس کو شکست ہوئی۔پی ٹی آئی کی طرف سے مشاورت کے بعد مٹھائی بانٹی گئی جیت کی فتح کی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور میڈیا پر لوگوں کے تاثرات بدلنے لگے۔دن گزرا تو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر موجود حامیوں نے اپنی جیت کے اسٹیٹس لگانے شروع کئے جو کل تک فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔دوسری طرف گزشتہ دن کی خوشیاں منانے والے مسلم لیگ نواز کے کارکن کچھ مایوس نظر آئے۔
درحقیقت عدالتی فیصلے کو فوری کوئی بھی نہ سمجھ سکا ۔جسکی بدولت یعنی نہ سمجھی کی وجہ سے لوگ سر عام توہین عدالت کرتے نظر آئے سوشل میڈیا اور میڈیا دونوں محاذ پر۔جو قابل مذمت ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عدالتی فیصلے ہمیشہ سے ہی بے بس رہے، عدالتی فیصلہ درست ہی سنایا جاتاہے ،فیصلہ ججز کی جانچ کے بعد درحقیقت انکی رائے یعنی انکے خیالات ہوتے ہیں جو حکم کی صورت میں پیش کئے جاتے ہیں۔مگر افسوس کہ اداروں ،عوام اور فیصلے کے فریقین نے کبھی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔عدالتوں سے زیادہ قصور وار تو ادارے ہیں جو عدالتی فیصلوں پر عملدراآمد نہیں کرواتے۔عدالتوں سے زیادہ قصور وار وہ وکیل ہیں جو روپے کے عوض جھوٹے دلائل جھوٹے گواہ اور جھوٹی کہانیاں گڑھ کر ججز کو فیصلے کی نوعیت بدلنے پر مجبور کرتے ہیں۔عدالتوں سے زیادہ قصور وار وہ عوام اور فریقین ہیں جو عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔مختصر یہ کہ ہم لوگ خود اپنے عدالتی وقار اور اپنی عدالتوں کی توہین کرتے ہیں اور توہین عدالت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں بلکہ عدالتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور ان کے کام میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔میں پاکستانی عدالتوں کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں جو بیک وقت طاقتور فریقین غنڈہ گرد وکلاء بے ایمان اداروں اور دوغلی عوام کے ہوتے ہوئے بھی اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔اس کے بعد کا احوال تو ہم بیس اپریل سے دیکھ رہے ہیں کہ کسً طرح اپنی من مانی کے تحت فیصلے کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ہر وہ شخص قانون دان بنا ہوا ہے جسے چار بندوں میں بات کرنے کا موقع ملتا ہے یا کوئی چار بندوں کا جھرمٹ اسکی بات سن رہا ہے۔دوسرے لفظوں میں جسے کسی اخبار یا ٹیلی ویڑن کی نمائندگی ملی ہوئی ہے۔
بھائی جس کا کم اسی کو ساجھے۔کوئی ماہر قانون ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ عدلیہ نے کس نوعیت کا فیصلہ دیا۔ہر بندہ قانون دان بن کر قانون کی دھجیاں تو خود اڑا رہا ہے۔سب سے بڑھ کر فریقین فیصلے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہو جاتے ہیں بھائی فیصلہ کھینچنے سے یا تو پھٹ جائے گا یا لمبا ہوجائے گا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں فریقین خوب سیاسی دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں کسی کو کرپشن کے خاتمے کی فکر نہیں بس اپنی اپنی حکومت بنانے اور کرسیوں کا استعمال ہی انکا مقصد ہے۔یہ ایک دوسرے کے لئے جملے کسنے میںمصروف ہیں اور مسئلہ کشمیر توجہ کا منتظر ہے بلوچستان بھی بہتری کا منتظر ہے سندھ بہتری کا منتظر ہے ملک بہتری کا منتظر ہے۔
سی پیک کی ساکھ کو نقصان ہو سکتا ہے ملکی سالمیت کی کسی کو فکر نہیں ،بلکہ سیاسی دکانداری چمکنی چاہئے۔افسوس۔کہ اب پیپلز پارٹی بھی انصاف کے فیصلے کرے گی عدالتوں سے بڑھ کر ہے یہ؟نہیں ہر گز نہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام فریقین کو صدق دل سے جے آئی ٹی کی ٹیم پر بھروسہ کرنا چاہئے اور ٹیم پر نظر مرکوز رکھنی چاہئے۔میں مانتا ہوں کہ ایک وزیر اعظم سے افسران کا تفتیش کرنا مشکل ہے مگر ناممکن ہر گز نہیں۔تمام فریقین کو ملکی حالات خراب کرنے کی بجائے جے آئی ٹی کی تحقیق کو مثالی بنانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔کیا یہ تاریخی فیصلہ نہیں کہ ملک کا وزیر اعظم بھی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوگا۔ماضی کی ایک بات بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب کہتے تھے کہ گیلانی صاحب اڈیالہ جیل میں بھی چلے جائیں تو وہ وزیر اعظم ہی ہوں گے اب کس منہ سے استعفی مانگ رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کا استعفی تو سمجھ بھی آتا ہے۔پی پی؟