پنجشیر (اصل میڈیا ڈیسک) افغان طالبان نے وادی پنجشیر کو فتح کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم مقامی مزاحمتی گروپ نے اس کی تردید کی ہے۔ طالبان کی جانب سے جلد ہی نئی حکومت کا اعلان متوقع ہے مگر مغربی ممالک نے اسے تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان اور قومی مزاحمتی محاذ نامی مقامی مزاحتمی ملیشیا کے مابین شدید لڑائی جاری ہے، جس میں اب تک سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس لڑائی کے سبب سینکڑوں مقامی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔
کابل کے شمال میں واقع پنجشیر ملک کا ایک چھوٹا صوبہ ہے اور یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس پر طالبان کو تاحال کنٹرول حاصل نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے لیے فریقین کے مابین بات چیت بھی شروع ہوئی تھی تاہم مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو اس علاقے میں بھیج دیا تھا۔
طالبان کے بعض ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور مقامی ملیشیا کو شکست دی جا چکی ہے۔ طالبان کے ایک کمانڈر کا کہنا تھا، ’’ہم نے پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ پنجشیر میں مسئلہ کھڑا کرنے والوں کو شکست دی جا چکی ہے اور اب وہ علاقہ بھی ہمارے کنٹرول میں ہے۔‘‘
تاہم اس علاقے میں طالبان کے خلاف نبرد آزما مقامی مزاحمتی گروپ نے طالبان کے ان دعووں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس لڑائی میں انہیں ابھی تک طالبان پر کافی بڑی سبقت حاصل ہے۔ شمالی اتحاد کے مقتول جنگی سردار احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود طالبان کے خلاف اس مزاحمت کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کے ہزاروں حامی جنگجو طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
افغانستان کے معزول نائب صدر امراللہ صالح نے بھی پنجشیر میں پناہ لے رکھی ہے اور انہوں نے بی بی سی کو بھیجے گئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ تاہم اس ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی۔
امراللہ صالح کا کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہم مشکل صورت حال میں ہیں۔ ہم طالبان کے حملوں کی زد میں ہیں۔ لیکن ہم سر جھکائیں گے نہیں، ہم افغان عوام کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
وادی پنجشیر ہر جانب سے اونچی پہاڑیوں میں گھری ہوئی ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ اور دو لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ علاقہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور رہا ہے۔ احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود نے بھی نوے کے عشرے میں اس علاقے میں طالبان کے خلاف کامیاب مزاحمت کی تھی۔
ایک ایسے وقت پر جب پنجشیر میں شدید لڑائی جاری ہے، طالبان نئی ملکی حکومت تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بہت جلد نئی حکومت کے قیام کا اعلان ممکن ہے۔ اس دوران عرب ریاست قطر کی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار بھی صلاح و مشورے کے لیے جمعے کو کابل پہنچ گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق قطری مندوب طالبان کی نئی حکومت کے قیام اور کابل ایئر پورٹ کو کھلا رکھنے کے سلسلے میں بات چیت کے لیے کابل پہنچے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گيا ہے کہ ایک غیر جانبدار ثالث کی حیثیت سے قطر نے تمام فریقین سے بات چيت کی ہے۔
اس بیان میں کہا گيا، ’’طالبان اقتدار کی پر امن منتقلی کو یقینی بنائیں اور تمام افغان باشندوں کی نمائندگی کرنے والی ایک مؤثر حکومت تشکیل دیں، جو تمام افغان شہریوں کے لیے کام کر سکے۔‘‘
امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مختلف معاملات طے کرنے کے لیے بات چیت تو کریں گے مگر ان کی حکومت کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔
یورپی یونین کا کہنا تھا کہ وہ انخلا کے عمل پر نظر رکھنے کے لیے کابل میں اپنی سفارتی موجودگی چاہتی ہے تاکہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنا سکے کہ افغان حکومت سکیورٹی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے حوالے سے جو وعدے کرتی ہے، وہ انہیں پورا بھی کرتی ہے یا نہیں۔
تاہم یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اہلکار یوزیپ بوریل کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کا قیام بہت سخت شرائط سے جڑا ہو گا اور ایسا کرنے کا مقصد صرف افغان عوام کی حمایت کرنا ہو گا۔