کاغذی مستقبل

Degree

Degree

تحریر : غزل میر

شادی د و انسانوں کا آپس میں ملن ہے ، ایک رشتہ جو بہت خوبصورت ہے مگر یہ رشتہ اور بھی زیادہ خوبصورت ہو تا اگر دو دلوں کے ملن میں ذات پات کی رکاوٹ نہ ہو تی یہ ذات پات کی رکاوٹ ہی بہت بڑی تھی کہ ایک کاغذ کے ٹکڑے نے اسے او ر زیادہ مشکل بنا دیا ہے،اس کاغذ کے ٹکڑے پر اگر دو الفاظ میں سے ایک ہو تو آپ مر ضی کی شادی کے رشتے میں ضرور بندھ جائیں گے وہ دو الفاظ ہیں ڈاکٹر اور انجینئرجی ہاں آپ چاہے بہت اچھے انسان ہیں یا بہت برے اگر آپ کے پاس ان دوالفاظ کی ڈگری والا کاغذ کاٹکڑا ہے تو آپ کی تمام رکاوٹیں ختم۔ اچھا یا برا انسان ہونے کا تعلق اس ڈگری کے ہونے یا نہ ہونے سے نہیں لیکن عزت کاحق دار ہم ایک دوسرے کواس ڈگری کی وجہ سے ہی سمجھتے ہیں۔

مجھے علم ہے پاکستان میں یہ جنون ہے کہ سب کے پاس ڈاکٹر یا انجینئر کی ڈگری ہو اور پھر ان ڈگریوںکی بہتات کے باعث ملازمتیں نہ ملنا ایک علیحدہ کہانی ہے۔ ہر معاشرے میں الگ الگ شعبے ہوتے ہیں ان شعبوںسے مل کر ہی معاشرہ آگے بڑھتا ہے ہر شعبے میں نوجوانوںکی ضرورت ہوتی ہے، معاشرہ اس وقت ترقی کرے گا جب ہمارے ذہن میں ڈاکٹر یا انجینئر کے علاوہ استاد، آرٹسٹ، آرکیٹکٹ، ہنرمندی کے شعبوںکی بھی اہمیت ہوگی یہ بھیڑ چال کانظریہ بدلنے کیلئے نظام تعلیم میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

ایسا سسٹم جہاں صرف استاد ہی کی بات نہیں بلکہ شاگرد کی بھی سنی جائے، آج والدین اور اساتذہ نوجوانوںپر اپنی مرضی ٹھونس دیتے ہیں انہیں وہ بتاناچاہتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہے حالانکہ بچے کے رجحان کو دیکھناضروری ہے شاگرد کی دلچسپی اور شوق ہی اس کی سب سے بڑی صلاحیت ہوتاہے اور اسی پر نہ صرف اس کی بلکہ ملک کی کامیابی استوارہوتی ہے۔

میں یہ سمجھتی ہوں ڈگری شادی کے بعد کمانے کی صلاحیت کے کام آتی ہے ۔پاکستان جیسے ممالک میں ایک شخص جذبے سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ بھی جو اکیلا ہو،شادی کے بعد خاندان کی ذمہ داری اٹھانا ایک حقیقی چیلنج ہوتا ہے جس کیلئے بالآخر جذبے کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔ کوئی بھی لڑکی ایسے لڑکے سے شادی نہیں کرناچاہتی جو زندگی میں صرف اپنے شوق اور جذبات سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو۔

جب تک کہ اس پر ڈاکٹر یا انجینئر کا لیبل نہ لگا ہو ۔اس لئے لڑکوں پر ڈگری کا یہ بوجھ رہتا ہے جب وہ خود یہ کام نہیں کر سکتے تو اسے اس طرح یقینی بناتے ہیں کہ جیون ساتھی ایسا حاصل کریں جس کے پاس یہ ڈگری ہو ،صرف یہی نہیں وہ بڑے ہو کر اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ اولاد کے ذریعے اپنی وہی خواہش پوری کریں ۔یہ عورت کیلئے بھی ایک منفی بات ہے کہ وہ اس خیال سے بچے پیدا کرے کیونکہ اس کے خاندان والے اپنی بہووں سے توقع کرتے ہیں کہ ان کی اولاد خواہشات پوری کرے گی۔

ڈگری کا ہونا یقینا ایک فخر کی بات ہے اور میرا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ڈاکٹر یا انجینئر کی ڈگری کو کمتر ثابت کیا جائے۔ لیکن مجھے زندگی میں ایسے بہت سے لوگ ملے جن کے پاس یہ ڈگریاں تو تھیں مگر انھیں ان کے تقاضے پورے کرنے کا شوق نہیں تھا ۔میں نے اسی وجہ سے اپنا راستہ اپنے شوق کے مطابق بدلا ۔میں انٹرنیشنل سکول سے پڑھ کرایک ایسی فیلڈ میں ہوںجس کامیری ڈگری سے کوئی تعلق نہیں ،میرے شوق نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔

یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ کا شوق جو ڈگری آپ کو دلائے گا وہ سب سے بڑی اور کامیاب ڈگری ہو گی۔ صرف ڈگری کا شوق آپ کو زندگی میں کچھ نہیں دے سکتا۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیجئے۔ ان کے اندر مو جود شوق کو با ہر آنے دیجئے پھر دیکھئے وہ ملک وقوم کیلئے کس قدر قیمتی اثاثہ ثابت ہو تے ہیں، آخر میں اپنی غزل ان تمام نوجوانوں کیںنذر کر نا چاہتی ہوں جو اپنی پہچان بنانا نہیں بلکہ اسے ابھی تلاش کر نا چا ہتے ہیں۔

ہمیں اپنے سے ملنے کی اک آس ہے
بجھتی نہیں جو آب سے وہ پیاس ہے
ہم ہوش میں آنے لگے ہیں اب تو
نشہ بھی ہم کو نہ آیا یہاں راس ہے
سردی میں پودا سوکھ گیا پیار کا
گرمی میں مر جھا گئی دل کی گھاس ہے
کھلتے پھولوں کے رنگ ہیں حسین
مگر مجھے کانٹوں کا بھی بہت پاس ہے
تاریخ ہے اردو کی کتابوں میں
زباں یہ نامکمل ہی ہمارے پاس ہے
کتاب پڑھنے سے ماضی بدل نہیں جاتا
مستقبل بھی ادھورا ہے یہ احساس ہے

Ghazal Mir

Ghazal Mir

تحریر : غزل میر