ہوا حب الوطنی کے موضوع پر بننے والی ایک فلم میںملک دشمن عناصر اداکار ندیم کو اتنا زچ کردیتے ہیں کہ وہ وحشت میں پاگل سا ہو جاتا ہے پھر اسی کیفیت میں وہ پھاڑوا لے کر قائد اعظم کے مزارپر جا تاہے اور قائدکا تابوت نکالنے کی کوشش کرتاہے اور اس جرم میں پولیس والے گرفتار کرلیتے ہیں پولیس انسپکٹر ندیم سے کہتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو جوایسا کررہے ہو۔
اداکارندیم جواباً کہتاہے ”تم لوگ اس قابل نہیں کہ میرا بابا قائد ِ اعظم یہاں رہے میں اسے دور کہیں دور لے جانا چاہتاہوں۔۔۔فلم کے کلائمیکس پر مبنی پہ سین مجھے بے ساختہ اس وقت یاد آگئے جب میںنے پڑھا کہ کچھ لوگوںنے چند سکوں کے عوض میرے بابے کا مزار ہیرا منڈی بنا ڈالا خبرکے مطابق مزارِ قائد میں عیاشی کیلئے آنے والے جوڑوںکو پیسے لے کر جگہ فراہم کی جاتی تھی۔۔اتنی گھنائونی واردات۔ کبھی دیکھی نہ سنی ۔۔۔اتنی گھٹیاسوچ کہ الحفیظ و الامان اور اتنے گھٹیا لوگ ۔ کہ لعنت بے شمار۔کیا واقعی ہم اہل نہیں ہیں کہ بابا قائد ِ اعظم جیسا سچا اور کھرا انسان ہمارے درمیان آسودہ ٔ خاک رہے۔
یقین نہیں آتا یہ سب کچھ کرنے والے پاکستانی ہیں جب سے یہ سنا یقین نہیں آرہا۔۔دل مان ہی نہیں رہا۔۔۔اندر کا انسان تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔۔۔۔رہ رہ کر ایک سوال اپنے آپ سے کئے جارہاہوں کہ کیا کوئی انسان اتنا بھی گر سکتاہے ؟ حکومت سے ایک گذارش ہے کہ بانی ٔ پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کرنے والوںکو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی قبیع حرکت سوچنے کا بھی یارا نہ ہو ۔۔یہ تو سنا تھا کہ دولت کی ہوس انسان کو اندھا بنا دیتی ہے لیکن اس قدر اندھا کہ گونگا۔ بہرہ کہ ہر احساس سے عاری ہو جائے یہ کہاں کی آدمیت ہے؟ ۔۔جائز نا جائز،حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز ختم ہو جائے تو معاشرہ میں ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
Pakistan
ہمارے ملک کا ماحول تو ویسے ہی ایسا ہے کہ یہاں مجرم ذہنیت کے لوگوں کو بال تک بیکا نہیں ہوتا اسی وجہ سے نت نئے جرائم جنم لیتے رہتے ہیںلوگوں کو یاد ہوگا کافی عرصہ یہلے ایک امریکی عہدیدار نے کہا تھا پاکستانی تو دولت کیلئے ماں تک بیچ دیتے ہیں یعنی ہماری ریپوٹیشن ایسی ہے کہ جوجس کے منہ میں آئے بک دے اورہم کھیسانے سے ہوکر دم سادھ لیںجس ملک کے حکمران ڈالروں کے عوض اپنے شہری امریکہ کو دیدیںوہاں حالات پر کیا تبصرہ کی جا سکتاہے۔۔دولت کی محبت نے ہم سے تمام تر اخلاقی اقدار کو چھین لیا ہے۔
جانوروں کی انٹریوں اور فضلات سے کوکنک آئل کی تیاری، مردہ ،لاغر، بیمار جانوروں کے گوشت کی دھڑلے سے فروخت ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ ، ٹماٹو کیچپ اور جام جیلی کے نام پر سٹارچ کا محلول،چوہوں کے گوشت سے فاسٹ فوڈکی فروخت، مرچ، صابن الغرض ہر چیزمیں ملاوٹ نے ہرشہری کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ الہی !یہ مسلمانوںکو آخر ہو کیا گیا ہے۔
مسلمانوںکیلئے صفائی نصف ایمان کی علامت ہے ۔۔۔۔ ملاوٹ کرنے والوں کے متعلق پیارے نبی ۖ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔ سود کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرا ردیا۔۔ جھوٹ کو سماجی و اخلاقی مسائل کی بنیاد کہا گیا لیکن دولت کیلئے ہر ذلت گوارا کرلینا ۔۔کہاں کی مسلمانی ؟ کہاں کی انسانیت؟ اور کہاں کا انصاف ہے؟ آگے آتی تھی حال ِ دل پر ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی
مجموعی طورپریہ صورت ِ حال ایک خطر ناک رحجان کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم ذلت کی اتھاہ گہرائیوںمیں گرتے جارہے ہیںہرحکمران کا کہنا ہے اس نے اتنے تاریخی اقدامات کئے ہیں کہ اب ملک میں غربت ختم ہوہی جائے گی۔۔۔اتنے دعوے۔۔ سارے وعدے۔۔۔اورہزارہا منصوبے تقریروں، خطابات اور کاغذوںمیں دفن ہوگئے۔۔حکمرانوںکے اثاثے،عوام کی محرومیاں ، ہوشربامہنگائی، اذیت ناک بیروزگاری اور نفرتیں بڑھتی ہی چلی گئیں کسی نے بھی مربوط حکمت ِ عملی یا ٹھوس منصوبہ بندی نہیںکی۔ڈھیلے ڈھالے اقدامات،بااثر شخصیات اور کرپشن نے قانون کو مفلوج کرکے رکھ دیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کہیں بھی حکومت کی رٹ نہیں ہے۔
جس کے باعث کسی کو قانون کا خوف نہیں رہاسب انصاف ،قانون اور قانون نافذ کرنے والوںکو موم کی ناک سمجھتے ہیں احتساب اور قانون صرف ان مجبور،بے بس اور غریبوں کیلئے ہے جو بااثرہیں کوئی ان کا چھ نہیں بگاڑ سکتا شاید اسی بناء پر پاکستان جرائم پیشہ لوگوںکی جنت بن گیا ہے ۔کیا یہ سب کچھ پاکستان کا مقدر بن گیا ہے؟۔۔۔ اصلاح ِ احوال کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا؟۔۔۔ کیا عام آدمی حکومت سے مایوس ہو جائیں؟ ۔۔نرمی ،تر غیبات، آسائشیں اور مراعات قانون شکنوں کیلئے نہیں صرف اور صرف ان کیلئے ہونی چاہییں۔
جو حکومت کی رٹ مانتے ہوں۔۔۔ قانون کا احترام دل سے کریں۔۔۔اورسماج کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں میرے خیال میں وہ وقت قریب آن پہنچاہے جب حکمرانوںنے یہ فیصلہ کرناہے کہ اس ملک کو نظام درست کرناہے یا قوم کو یونہی شتر بے مہار آزادی دئیے رکھنی ہے۔۔ہم نے اپنے ملک کی بقاء کیلئے کام کرناہے یا پھر ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بناکر اپنے آپ کے ساتھ منافقت کرنی ہے۔۔۔۔ یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہا تو اخلاقی اقدار، اخلاقیات اور یگانگت کا جنازہ روز سر بارار اٹھے گا اور ہمارے ارد گرد وحشت،بے شرمی اور بے حیائی ناچ رہی ہوگی اور ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔یاد رکھیں اگر قدرت ہمیں مہلت پہ مہلت دئیے جارہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا چاہیے نہ جا اس کی سخت گیری پر کہ بے ڈھب ہے۔
گرفت اس کی حکمرانوں کو زمین پر بادشاہی دینے والے کی خوشنودی کیلئے اب اقدامات کرنا ہوگا ۔یہ سوچنے کا وقت ہے۔۔۔ عمل کی گھڑی ہے اور غور وفکرکا مقام ہے۔۔ کیا ہمارے ارباب ِ اختیار کے پاس کچھ وقت اس کام کیلئے بھی ہے یا نہیں اس سے پہلے توبہ کا درورازہ بند ہو جائے کچھ کرنا ہوگا۔یا پھر میرے بابا کا مزارکہیں دور منتقل کردیا جائے جہاں ایسی گھنائونی وارداتیں نہ ہوں اور وہ روزمارے شرم کے اس کی روح کو اذیت نہ ہو۔