تحریر: مسز جمشید خاکوانی انو جانی!تمھارا خط ملا پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی یہاں بھی اس طرح کے حالات چل رہے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کے یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے مجھے یہاں بھی بھائیوں کے ساتھ رہنے کو کہا گیا تھا مین نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ رہا کرتا تھا مجھے ایک الگ کوارٹر عنایت فرمایا جائے۔
مصطفی زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے الگ کوارٹرمل گیا مگر اس کاڈیزائن نثری نظم جیسا ہے جو سمجھ میں تو آ جاتی ہیں مگر یاد نہیں رہتیں روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کدھر ہے لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے ۔میر تقی میر کا گھر سامنے آئے ہے ان کے دو سو پچاس شعر جن میں وزن کا فقدان تھا نکال چکا ہوں مگر کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی ۔کوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر غالب کاہے ۔میں نے میر سے کا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپ کا گھر ایوان غالب سے بڑا ہونا چاہیئے۔میر نے کہا دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے جس پہ غالب نے قبضہ جما رکھا ہے ۔میر کے گھر کوئی نہیں آتا سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی آئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کیلئے۔ایوان غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے جس کی وجہ تم جانتے ہو۔۔
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
یہاں آ کر یہ مصرع مجھے سمجھ آیا اس میں ” بار ” انگریزی والا ہے دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلاوہ دیا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتہ کاٹ دیا ۔سودہ کا گھر میرے کوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیامجھے دیکھتے ہی کہنے لگے میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو ۔میں مان گیا سودہ کا سودا لانا میرے لیے باعث عزت ہے لیکن جانی جب سودا حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گذر جاتی تھی جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے؟حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لائے ؟تمھیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے ہر چیز پہ اعتراض مجھے لگا تھا وہ مجھ پہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے مین سے پیسے رکھ لیتا ہوں چا روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اردو ادب کی تاریخ کا واحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔
آپکے ٹینڈوں سے کیا کمائوں گاآپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لیئے سودا لانے پہ تیار ہوا آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا نہ آپ کی زمین استعمال کی آئیندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجئے تاکہ آپ کا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں میرے ہاتھ میں بینگن تھا وہ ان کو تھمایا اور کہا ”بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ میں چلا” ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لیے خود کو مجھ سے بڑا شاعر مت سمجھنا ۔فراز نے کہا مشاعرے میں نہیں آئے۔پھر مجھ سے کہنے لگے امرائو جان ادا کہاں رہتی ہے ؟ میں نے کہا رسوا ہونے سے پہلے گھر چلے جائو مجھے نہیں معلوم کہاں رہتی ہے۔
Poetry
جانی! ایک حور ہے جو ہر روز آلو کا بھرتہ پکا کر میرے گھر لے آتی ہے شاعری کا بھی شوق ہے خود بھی لکھتی ہے مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے اس کو مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا بہت شوق ہے ۔میں نے کہا خدا انہیں لمبی زندگی دے پاکستان کو انکی بہت ضرورت ہے ۔اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جائو جس قسم کی شاعری کرتی ہو کرتی رہو وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور پکنک منانے کے لیئے سمندر کے کنارے لے جائیں گے۔ ابن انشا،سید محمد جعفری،دلاور فگار،فرید جبال پوری ،اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں ۔ان لوگوں نے نو نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا ۔اقبال، فیض ،قاسمی، صوفی تبسم ،فراز اور ہم وقت مقررہ پر پہنچ گئے کواٹر میں اندھیرہ تھا دروازے پر پرچی لگی تھی ! ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں ڈنر اگلے سال نو نومبر کو رکھا ہے۔
اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں میں شرکت پر پابند لگا دی تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا ہے وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں کہیں نہیں جاتے مگر حیرت کی بات ہے جانی! میں نے انکے گھر بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے ۔یہاں آنے کی ابھی جلدی نہ کرنا کیونکہ تمھارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے اگر تم بھی یہاں آ گئے تو مجھے وہاں کون یاد کرے گا ؟؟؟ جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو ہم بھی کسی نہ کسی پہ مرتے رہے مگر جانی !جینے کا موقع نہیں ملا ! قارئین! یہ دلچسپ تحریر مجھے کسی نے میل کی تھی میں سوچا آپ سے شیئر کروں ۔امید ہے آپ انجوائے کریں گے۔