تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مجھے برطانیہ آئے ہوئے دس دن ہو چکے تھے اِن دس دنوں میں میں تقریباً سارا UK گھوم چکا تھا اِن دس دنوں میں شہر شہر گھومتے ہوئے میں سینکڑوں لوگوں سے ملا بھی ہر میزبان نے اپنے اپنے انداز سے بھر پور مہمان نوازی بھی کی برطانیہ کے لوگوں کی مہمانداری میرے دل و دماغ میں خوشبو کی طرح آج بھی مہک رہی ہے اور مہکتی رہے گی ۔خالقِ ارض و سما دیا رغیر میں تمام تارکین ِ وطن کی زندگیوں کو روحانی، جسمانی اور مالی آسانیوں سے بھر دے آمین۔بے شمار لوگوں سے ملنے کے بعد میں تقریباً اِس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ یہاں پر ہر انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے رِزق، جاب ، اولاد اور میاں بیوی کے جھگڑوں کی وجہ سے یہ لوگ بے بسی اور لاچارگی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔میں جوساری عمر اہل حق کی تلاش میں رہا اور رب ِ کعبہ کے کرمِ خاص سے بے شمار اہل نظر سے ملاقاتیں بھی ہوئیں یہاں بھی میں یہ توقع کر رہا تھا کہ اہل حق اور روحانی طور پر زندہ اور بیدار بندہ ِ خاص سے ملاقات کب ہوگی یا ہوگی بھی نہیں سینکڑوں لوگوں سے ملنے کے بعد میں تقریباً مایوس ہو چکا تھا کہ شاید کرہ ارض کا یہ خطہ اہل حق اور اہل ڈیوٹی لوگوں سے خالی ہو۔جب میری یہ مایوسی اور حسرت آخری حدوں کو چھونے لگی تو ربِ ذولجلال کو ہمیشہ کی طرح مُجھ غریب پر ترس آیا اور ایک مرد ِ با کمال سے ملا دیا ۔مجھے تقریباً پچھلے پانچ دنوں سے مسلسل صبح شام ایک بوڑھا آدمی فون کر رہا تھا کہ میں لندن میں مقیم ہوں اور دور سے آپ سے ملنے آیا ہو ں میں کیونکہ مانچسٹر ، لیڈز اور بریڈ فورڈ کی طرف تھا اِس لیے روزانہ کہتا کہ لندن واپس آئوں گا تو ضرور ملوں گا ۔ مانچسٹر سے لندن واپسی پر بھی اُس شریف اور مہذب انسان کا فون آیا اُس کے لہجے میں بلا کی شائستگی اور التجا تھی کہ فوری طور پر مجھ سے مل لیںمیں نے واپس بھی جانا ہے۔
اُس کی گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ یو کے کا رہنے والا نہیں ہے میری کتابیں پڑھنے کہ بعد صرف اللہ تعالی کی محبت میں ملنا چاہتا ہے وہ دنیاوی کسی مسلے کے لیے مُجھ سے نہیں ملنا چاہتا تھا وہ صرف اللہ تعالی اور نبی کریم ۖ کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا تھا وہ یورپ کے کسی ملک کا رہنے والا تھا جب اُسے پتہ چلا کہ میں UKمیں آیا ہوا ہوں تو ملنے آگیا اب بار بارفون کر کے ملنا چاہ رہا تھا ۔ اُس سے بات کر کے مجھے بہت اچھا لگا لہذا میں نے اگلے ہی دن کا وقت ملاقات کے لیے طے کیا ۔فون بند کرنے سے پہلے اُس نے بڑی معصوم اور عجیب خواہش کا اظہار کیا کہ کیونکہ وہ لندن کا رہنے والا نہیں ہے اِس لیے وہ اپنے گھر میری دعوت نہیں کر سکتا لہذا میں اُس کی کار میں اُس کے ساتھ کسی جگہ جائوں جہاں ہم چائے یا کھانا کھا سکیں اِس دوران ہم باتیں بھی کر سکیں گے آخری درخواست یہ بھی کی کہ میں اُس سے اکیلا مِلوں ۔اُس کی گفتگو میں ایک خاص جاذبیت بھی جس وجہ سے میں اُس کی تمام شرطیں مانتا چلا گیا ۔لہذا اگلے دن مقررہ وقت اور جگہ پر آکر اُس نے مجھے فون کیا کہ جناب میں گھر کے باہر آپکا انتظار کر رہا ہوں ۔ میں پہلے سے ہی تیا رتھا اِس لیے باہر نکلا تو گھر کے باہر اپنی کا رکے ساتھ وہ نیک انسان میرا انتظار کر رہا تھا مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے کار سے نکلا اور مجھ سے بغل گیر ہو گیا اور کا ر کا اگلا دروازہ کھول کر مجھے فرنٹ سیٹپر بٹھا کر تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر مسکراتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور شکریہ ادا کیا کہ میں ملاقات کے لیے وقت نکالا ۔وہ تقریباً 60سال سے زیادہ عمر کا آدمی تھا ۔لیکن اُس کی آنکھوں میں دلوں تک پہنچنے والی روشنی تھی اور مصافحے میں قرون اولی کے مجاہدوں کی گرمی تھی ۔اُس کے چہرے اور آنکھوں میں بڑھاپے کی بے بسی اور لاچارگی نہیں تھی۔
Islam
اُس کے پاس بیٹھ کر مجھے بھی ایک خاص آسودگی اور طمانیت کا احساس ہو رہا تھا ۔تعارفی گفتگو کے بعد ہی مجھے پتہ چل چکا تھا کہ وہ ایک نہایت نیک آدمی ہے ۔وہ ایک کلین شیو آدمی تھا لیکن باطنی طور پر صوفی لگ رہا تھا۔مجھے بیٹھتے ہی اُنہوں نے پوچھا کہ ہم کتنے وقت کے لیے اکٹھے ہیں تو میں بولا جناب آج آپ کے ساتھ ہوں جب آپ حکم کریں گے تو ہی واپس آئوں گا وہ بہت خوش ہوئے اب انہوں نے طے کیا کہ ہم ساحل سمندر پر چلتے ہیں وہاں جا کر آرام سے کھانا کھائیں گے اور باتیں بھی کریں گے ۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اصل بات جس کے لیے میں آپ سے ملنا چارہا تھا وہ تو ساحل سمندر پر جا کر کریں گے لہذا راستے میں ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے باتوں کے دوران نبی کریم ۖ کا ذکر آیا تو اُن پر جذبہ عشق ِ رسول ۖ کی رقت طاری ہو گئی اُن کی آواز عشقِ رسول ۖ سے لبریز اِس قدر رِقت انگیز تھی کہ اُن کے ایک ایک لفظ سے اُن کے دل کا درد اور عشقِ رسول ۖ کے احساسات و جذبات چھلک رہے تھے ۔ میرا یہ بارہا کا تجربہ ہے کہ جب بھی کوئی عاشقِ رسول ۖ بولتا ہے تو موسم کی کی سختیوں سے بے نیاز پتھر بھی پگھلنے لگتے ہیں ۔ وہ سرور ِ کائنا ت ِ کی شان بیان کر رہے تھے اور میں جھوم جھوم کر سن رہا تھا ۔ شہنشا ہ ِ مدینہ کی شان کیسے بیان ہو سکتی ہے اگر تمام کائنات ، انسان ، چرند پرند ، ہر ذی روح ، ذرہ ذرہ پتا پتا ہوائیں فضائیں غرض خدا کی تخلیق کردہ ہر چیز شانِ مصطفٰے ۖ یعنی مدح و ثناء کا اہتمام کریں تو قیامت تک آپ ۖ کی سیرت کا بیان ختم نہ ہو ۔ زبانیں عاجز رہ جائیں اور لفظوں کا ذخیرہ اپنی تنگ دامنی پر شرمسار ہر جائے ۔ مغرب کو اپنی تہذیب اور تاریخ پر بہت فخر کرتے ہیں اُن کی تاریخ میں ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے جو شافع محشر کا مقابلہ تو دور کی بات ہے آپ ۖ کے صحابہ کرام کے پیروں سے اٹھنے والی خاک کو ہی چھوسکے ۔میں اپنے میزبان کی گفتگو اور جذبہ عشقِ رسول ۖ سے ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو چکا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ بندے کہاں کہاں کس کس روپ میں چھپا رکھے ہیں ۔ وہ سرکارِ مدینہ ۖ کی خوشبو دار باتیں کرتے جا رہے تھے اور میں موم کی طرح پگھلتا جا رہا تھا ۔ میرا وجود مشتِ خاک کی طرح ہوامیں بکھرتا جا رہا تھا۔
پیارے آقا ۖ کا نام آتے ہی دل و دماغ میں گلاب کی کونپلیں پھول بننا شروع ہو جاتی ہیں جسم و روح میں سر شاری دوڑنے لگتی ہے آج تک کوئی اِس راز کو نہیں پا سکا کہ ساقی کوثر ۖ کا نام آتے ہی باطن میں روشنیوں کے پھوارے سے پھوٹنے لگتے ہیں اور نس نس نشے اور سرور سے بھر جاتی ہے سنگ دل سے سنگ دل مسلمان کے سامنے جب آپ ۖ کا ذکر ہو تا ہے تو آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگتی ہیں اور بڑے بڑے مضبوط دل لوگ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتے ہیں ۔اِسطرح کو گریہ اور سرور دنیا میں کسی مقام پر نہیں ہے پوری کائنات میں مدینہ پاک میں روضہ رسول ۖ ہی واحد جگہ ہے جہاں پر لاکھوں انسان روزانہ پتنگوں کی طرح شمع فروزاں پر گرتے ہیں اور بار بار بھسم ہو تے ہیں ۔ربِ کعبہ نے یقینا ازل سے ہی خاک ِ مدینہ کے لیے دائمی عظمتیں اور لازوال شہرت مقدر کر دی تھی اسلام غارِ حرا پہ اُترا لیکن اِس کی کرنیں مدینہ کے اُفق سے پھوٹیں مدینہ نور کی بستی ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے حاجت مند دعائوں کی پوٹلیاں باندھے ساقی کوثر کے در پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی خالی جھولیاں بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔دیکھنے میں تو مدینہ ایک سنگ و خِشت کا شہر لگتا ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔مدینہ ایک جذبہ ایک عشق ، ایک احساس ، ایک روح اور کثافتوں کا لطافتوں میں ڈھلنے کا مقام ہے شرعی طور پر مدینہ میں حاضری نہ مناسک حج کا حصہ ہے اور نہ ہی فرائض عمرہ یہ سب کچھ تو مکہ شریف اور گردو نواح میں ہی تکمیل پا جاتا ہے لیکن روح اور باطن کی تسکین تو مدینہ پاک میں ہی پوری ہوتی ہے۔
عاشقِ رسول ۖ جب مدینہ کا رخ کرتے ہیں تو سرور و مستی اور اپنائیت کی ٹھنڈی ہوائیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔شفقت ،محبتم اپنائیت اور ممتا کی سی تھپکیاں آنے لگتی ہیں۔ یہ رنگ نور کی ایسی بستی ہے اس کا موسم ، آب و ہواکرہ ارض پر تمام بستیوں سے الگ ہے اِس کی کشش ہزاروں میل دور کروڑوں دلوں پر دن رات دستک دیتی ہے ۔اِس واحد بستی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر مسلمان گنبدِ خضرا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دنیا کے تمام خزانوں اور اعزازات کو ٹھکرا دیتا ہے اور جوش عقیدت میں خاک ِمدینہ کو اپنے جسم میں مل لیتا ہے کہ یہی خاک اُس کے لیے مشک و عنبر سے بڑھ کر ہے اِس بستی میں سرکارِ مدینہ ۖ آسودہ خاک ہیں جنہوں نے عہد ِ جہالت کی تقسیم کردہ تمام مٹیوں کو ہم رنگ بنا دیا ۔میں مدینہ پاک اور روضہ رسول ۖ کے تصور میں گم تھا کہ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی اور میرا میزبان بولا لو جناب ہم ساحل سمندر پر آ گئے۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org