تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ ہزاروں پولیس اہلکاروں اور سیاسدانوں کی موجودگی میں سرگودھا کے ایک پیرنے 20 افراد کی زندگی چھین لی۔ تو پھر انتظامیہ کو خبر ملی۔ پوری دنیا میں یہ سانحہ سرگودھازیر بحث ہے کیا، تمام سیاستدان اور پولیس اہلکارکسی بڑے کام میں مصروف تھے جس کی وجہ سے خبر ملنے تک 20 افراد زندگی کی بازی ہارچکے تھے۔
عالمی میڈیا پر کہاجارہاہے کہ ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 20 افراد کو قتل کر دیا۔ یہ خبر پاکستان جیسے معاشرہ میں شاید بہت اہمیت نہیں رکھتی۔ وہاں انسان کو مار دینا مسئلہ کا آسان ترین حل سمجھا جاتا ہے ۔ جائیداد کا جھگڑا ہو، شادی بیاہ کے فیصلہ میں پسند نا پسند کا معاملہ ہو، کسی دوست سے اس کے دھوکے کا حساب لینا ہو یا محض بحث مباحثہ سے توتکار تک معاملہ جا پہنچے تو انسان کی جان لینے کا عمل آسان اور فوری حل کے طور پر اپنا بھیانک چہرہ دکھاتا ہے ۔ ایسے میں کوئی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس ایک اضطراری یا سوچے سمجھے اقدام کے بعد اس شخص اور اس کے خاندان کو ملک کے ناقص نظام قانون میں کس طرح کے المناک حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ 20 انسانوں کو ایک ایک کرکے قتل کرنے کا عمل جمعہ کی رات سے شروع ہوا لیکن پولیس کو ہفتہ کی رات سے قبل اس سنگین جرم کی خبر نہ ہو سکی۔ جب اطلاع ملی اور پولیس وہاں پہنچی تو 20 افراد جان سے ہاتھ دھو چکے تھے ۔ درگاہ کا متولی یا سجادہ نشین کیوں کر 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک لوگوں کو ایک ایک کرکے بلا کر تشدد کے ذریعے قتل کرتا رہا۔ اس بارے میں مختلف معلومات سامنے آئی ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق بچوں نے دروازے کی درز سے یہ عمل دیکھا تو شور مچا دیا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق ایک عورت زخمی حالت میں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی تو پولیس کو اطلاع دی جا سکی۔ اس پر سوال اٹھانے والے کو دنیا سے اٹھانے والے ہر لمحہ تیار اور ہوشیار رہتے ہیں۔
سرگودھاتاریخی حوالے سے پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے ۔ یہ ایک ہندو سادھو کے نام پر ہے جو گول کھوہ (کنواں) پر رہتا تھا۔ جہاں دوسرے مسافر بھی آرام کرتے تھے ۔ آج وہاں پر ایک خوبصورت سفید مسجد ہے جس کا نام گول مسجد ہے اور اسکے نیچے گول مارکیٹ ہے ۔ انگریز راج میں یہ ایک چھوٹا قصبہ تھا لیکن اسکی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ایک فوجی ایئرپورٹ بنایا گیا۔ سرگودھا پہلے شاہپور کی ایک تحصیل تھی لیکن اب شاہپور سرگودھا کی تحصیل ہے ۔اس وقت شہریوں کی حفاظت کیلئے محکمہ پولیس کے 50 کے قریب پولیس تھانے اور چوکیوںمیں تعینات افسروں سمیت ہزاروں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔
پاکستان کے تین شہروں لاہور، سرگودھا اور سیالکوٹ کے شہریوں کو 1965ء کے پاک بھارت جنگ میں بہادری کے لیے ہلال استقلال سے نوازا گیا جوکہ ان کے لیے بہت فخر کی بات ہے ۔ اسی طرح سرگودھا کے لوگ بھی اس پر فخر کرتے ہیں ۔ جو انہیں پاکستان کے باقی شہروں سے نمایاں کرتا ہے ۔ سرگودھا ہمیشہ سے ہی بہادروں کی سرزمین رہی ہے . اورپاکستان فضائیہ کے پائیلٹ ان بہادروں میں ایک بہترین اضافہ ہیں۔
این اے ،64-iسے پیرمحمدامین حسنات شاہ، این اے 65-iiسے محسن شاہ نواز رانجھا،این اے66-ii سے چوہدری حامد حمید،این اے 67.ivسے ڈاکٹر ذوالفقارعلی بھٹی ،این اے 68-vسے سردارمحمدشفقت حیات خان قومی اسمبلی میں سرگودھاکی عوام کے ترجمان اور حقوق کے محافظ ہیں ،اسی طرح پی پی 30۔ IIIچوہدری طاہر احمد سندھو ایڈووکیٹ،پی پی 32 ۔ Vچوہدری عامر سلطان چیمہ،پی پی 33 ۔ VIچوھدری عبدالرزاق ڈھلوں،پی پی 35 ۔ VIIIچوھدری فیصل فاروق چیمہ،پی پی 29 ۔ IIغلام دستگیر لک،پی پی 28 ۔ Iملک مختار احمد بھڑتھ،پی پی 31 ۔ IVمیاں مناظر حسین رانجھا،پی پی 34۔ VII نادیہ عزیز،پی پی 36 ۔ IXرانا منور حسین المعروف رانا منور غوث خان،پی پی 37 ۔ Xصاحبزادہ غلام نظام الدین سیالوی،پی پی 38 ۔ XIسردار بہادر خان میکان پنجاب اسمبلی کے ممبر ہیں۔
اس صورتحال کی بھی دو شکلیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر ملزم بااثر اور مالدار ہے تو قانون کی ناک موم کی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ تھانے کی حوالات ہو یا جیل کی کوٹھری، اسے باآسانی عشرت کدہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور معمولی سی کارروائی کے بعد جھوٹے سچے گواہوں اور شواہد کے ذریعے ضمانت اور بری ہونے کا اہتمام ہونا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ دوسری صورت میں اگر ملزم بے وسیلہ اور سماجی لحاظ سے کمزور ہے تو پولیس اور نظام کو اپنا غبار نکالنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے ۔ ضمانت اور برایت تو دور کی بات ہے کوئی پولیس افسر یا عدالت میں انصاف کی کرسی پر بیٹھا جج اس کا موقف سننے یا جانچنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کسی نہ کسی گناہ کو ایسے مجبور شخص کے گلے کا طوق بنا کر اسے ساری زندگی کے لئے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ یا کسی ایسے وقت میں کسی اعلیٰ عدالت میں معاملہ کی شنوائی ہوتی ہے اور اس میں سقم تلاش کئے جاتے ہیں جب کوئی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ چکا ہوتا ہے۔
ایسی کوئی خبر سامنے آنے پر نظام پر دو حرف بھیجنے کے بعد معاملہ کو فراموش کرتے دیر نہیں لگتی۔ سماجی کٹھور پن کے یہ مظاہر عام ہیں۔ خواہ وہ کسی ایسے رئیس زادے سے سرزد ہوں جس کی انا کو کسی وجہ سے ٹھیس پہنچے اور وہ اپنی بندوق کا بارود کسی بے گناہ کے سینے میں اتار دے یا کسی ایسے ہجوم کی صورت میں جو کسی کو چوری کرتے پکڑے اور موقع پر ہی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بے تاب ہو اٹھے اور اتنا ظلم کرے کہ نشانے پر آیا ہوا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی بدترین صورت البتہ وہ ہے جو جرم کو سرزد ہوتے دیکھتے ہوئے بھی عام شہریوں کو خاموش رہنے یا نظریں جھکا کر کنی کترا لینے پر مجبور کرتی ہے ۔ کتنے لوگ ہیں جو کسی مظلوم پر ظلم کرنے والے کو روکنے کا حوصلہ کریں گے یا اس کے خلاف گواہی دینے کے لئے سامنے آ سکتے ہیں۔ معاشرہ میں جمہوریت نافذ کرنے کی دعویدار اور کرپشن سے پاک سماج بنانے کے نعرے بھی اس نظام کو بدلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے جو صرف طاقتور اور باوسیلہ شخص کی حفاظت کرتا ہے اور اسی کو ”انصاف” دینے کا حوصلہ کرتا ہے۔
وزیراعلیٰ نے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور حسب دستور ورثا کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ سانحہ ملک کے دانشوروں سے لے کر سیاستدانوں تک کے سامنے یہ سوال لا رہا ہے کہ کیا اس جہالت اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے گھناؤنے دھندے کو بند کرنے کا اہتمام ہو سکتا ہے ۔مذہبی لیڈروں سے توقع عبث ہے ۔ ان کی طرف سے مسلک اور فرقے کی بنیاد پر افسوس یا مذمت کے بیان تو سامنے آ سکتے ہیں لیکن بیمار ذہن کا علاج کرنے کے لئے ہمارے دینی حلقے تیار نہیں ہوں گے ۔ کیونکہ ان میں اکثر و بیشتر لوگوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔