علم دنیا کی سب سے بڑی اورخوبصورت دولت ہے ۔علم کے حصول کے لیے جتنی بھی محنت کی جائے کم ہے اورمیری نظر میںانسان جتنا بھی علم حاصل کرلے کم ہے ۔بچوں کے لیے علم کے حصول میں آسانیاں پیداکرنا ہمارا فرض بھی ہے اور اہم ترین ضرورت بھی ۔یہ بات تو میں پہلے دو مضمونوں میں بھی کہہ چکاہوں کہ بچے وقت مانگتے ۔آج میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بچے توجہ بھی مانگتے ہیں۔آج بات کروں گا بچوں کی تعلیم و تربیت کے موضوع پر تواگروالدین اور اساتذہ اکرام دوران
کوتوجہ دیں تو بچوں کے لئے تعلیمی مشکلات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ کہ کیا گھر کا ماحول تو ایسا نہیں جس کی وجہ سے بچے پریشان رہتے ہیں ۔
کیا بچے والدین کے آپس میں غلط رویوں کی بھینٹ تو نہیں چڑھ رہے والدین کی بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ ،مار پیٹ یا ضرورت سے زیادہ سختی کی وجہ سے بچے خوف میں مبتلاتو نہیں ہورہے ۔اس طرح کے حالات میں بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے ۔اس طرح کے مسائل اکثر اساتذہ اور والدین کی سمجھ میںنہیں آتے اوراُلجھن اور زیادہ بڑھتی جاتی ہے ایسے میں والدین اور اُساتذہ کوآپس میں رابطہ رکھنا چاہئے تاکہ مل جل کر بچوں کی مشکلات کو سمجھا اور دور کیاجاسکے ورنہ غلط ماحول اور خوف بچوں کی فطری صلاحیتوں کو تباہ وبرباد کرکے خوداعتمادی کا فقدان پیداکردیتے ہیں۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچہ کھیلتے وقت خوش و خرم (فریش) رہتا ہے لیکن جب پڑھنے کا وقت ہوتا تو وہ سردرد اور تھکاوٹ کی شکایات کرتا ہے ۔
Teachers and parents
اگر ایسا ہو تو اساتذہ اور والدین کوبچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونماکا بغور جائزہ لینا چاہئے اور بچے کی مشکلات کو پیار سے حل کرنا چاہئے ۔ ناکہ بچے کی نیٹ پر شک کرکے مار پیٹ کرنی چاہیے۔یہ بات تہہ ہے کہ ہر گھر میں ایک جیسی سہولتیں موجودنہیں ہوتیں ٹھیک اسی طرح ہرگھر کی مشکلات بھی مختلف ہوتیں ہیں ۔غریب کے گھر میں دور جدید میں ایجادہونے والی مہنگی ترین چیزیں کم ہی ہوتی ہیں لیکن امیر آدمی کے گھر میںبہت سی ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیںجنہیں اگر بچے حد سے زیادہ استعمال کریں تو بھی ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوسکتیں ہیں ۔ دور حاضر میں بچوں کو جدید ترین سہولتیں میسر ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ اور والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے باعث بچوں کی توجہ تعلیم کی طرف سے ہٹ گئی ہے ۔ٹیلیویژن پروگرام ،ویڈیو گیم اورکمپیوٹرنے بچوں کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ہے ،یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن سوفیصد درست نہیں ہے کیونکہ ویڈیو گیم اورکمپیوٹرکی ایجادات سے پہلے بھی والدین کو بچوںکی تعلیم میں عدم دلچسپی کی شکایات رہتی تھی ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اور بچے مختلف انداز میں اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہیں ۔
بچوں اور والدین کی عمرمیں کم از کم بیس سے پچیس سال کا فرق ضرور ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور والدین کی دلچسپی اور توجہ کے مراکز بھی مختلف ہوتے ہیں ۔بچوں کے ساتھ ان کے والدین کا برتائو ،لاڈ،پیاریامارپیٹ اور سمجھانے کے انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔جیسا کہ اگر بچہ کوئی سوال کرے تو ہم عام طور پر جلدی سے اُسے جواب دے دیتے ہیں کہ آپ کو ابھی اس بات کا نہیں پتا۔اگر اہم بچوں کے سوالات کے جوابات نہیں دیں گے تو انہیں ساری زندگی کسی بات کا پتا نہیں چلے گا۔ہم نے کبھی یہ بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ سوال اُسی وقت کیا کیا جاتا جب کسی بات علم نہ ہو۔اب دیکھنے کی بات یہ کہ بچوں کے ساتھ والدین کا برتائوتعلیمی معاملات میں آسانیا ںپیدا کررہا ہے یا مشکلات پیدا کررہا ہے۔اسی طرح اساتذہ کا طریقہ تدریس اور دوسرے عوامل بھی اس ضمن میں قابل غور ہیں ۔
Teacher behavior
ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا لینا چاہئے کہ کیا بچوں کا رویہ کلاس روم میں اساتذہ کے لئے پریشان کن تو نہیں ہے اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سا رویہ یا مضمون ہے جس میںبچے کو مشکلات پیش آرہی ہیں ۔اور یہ بات بھی بہت زیادہ قابل غور ہے کہ مشکلات کی اصل وجوہات کیا ہیں ۔اگر بچہ کلاس روم میں خاموشی اختیا ر کئے رکھتا ہے اور کبھی کوئی سوال نہیں کرتا تو بچہ کلاس روم کے ماحول ناخوش اور تعلیمی سرگرمیوں میںبہت کمزور ہے۔ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھنا چاہئے کیونکہ بچے دنیا کا قیمتی ترین سرمایہ اور ہمارا آنے والا کل ہیں۔ تحریر : امتیازعلی شاکر imtiazali470@gmail.com