تحریر : افضال احمد ایک بزرگ نے اپنے بچہ کو شروع ہی سے توکل کی عملی تعلیم اس طرح دی تھی کہ اس کی ماں سے کہہ دیا کہ اس کو روٹی ‘ کپڑا تم خود مت دیا کرو’ جب یہ کھانا مانگے اس سے کہہ دو کہ بھائی خدا سے مانگو! ہم بھی خدا سے مانگتے ہیں اور ایک الماری مقرر کر دی تھی جس میں کھانا پہلے سے رکھ دیا جاتا تھا اور لڑکے سے کہہ دیا کہ وہاں جا کر خدا سے دعا کرو پھر الماری کھولو جو کچھ تیری قسمت میں ہو گا مل جائے گا ‘ بچہ وہاں جاتا اور دعا کرتا اور روزانہ وہاں سے کھانا لے لیتا۔ ایک دن اس کی ماں کھانا رکھنا بھول گئی بچہ معمول کے مطابق الماری پر گیا اور خدا سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے کھانا دے دے’ پھر الماری کھولی تو وہاں کھانا موجود تھا’ اس کی ماں نے یہ واقعہ ان بزرگ صاحب سے بیان کیا انہوں نے سجدئہ شکر ادا کیا اور بیوی سے کہا کہ بس اب تم وہاں کھانا مت رکھا کرو’ اب غیب سے امداد شروع ہو گئی ہے اور یہ بچہ کھانے پینے کی فکر سے چھوٹ گیا۔
یہ تو تھی جی ایک اللہ والے بزرگ کی اپنی اولاد کیلئے تربیت’ ہم آج کل کے والدین کو دیکھ لیں تو آج کل کے والدین اس تربیت کے بالکل برعکس اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں۔ اس برق رفتار دور میں مَیں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہیں خواب دیکھانے لگتے ہیں کہ بیٹا آپ نے ڈاکٹر’ انجینئر’ سائنسدان’ اداکار بننا ہے اور یہ سب مقام آپ اُس وقت تک نہیں پا سکو گے جب تک آپ دنیاوی تعلیم پر توجہ نہیں دو گے۔ والدین دنیاوی تعلیم کی بے پناہ فکر کرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا انگریزی بولنے لگ جائے’ انگریزوں جیسا دیکھائی دے’ بال انگریزوں جیسے ہو جائیں’ چال ڈھال’ ڈریسنگ انگریزوں جیسی کرنے لگے والدین کو پاگل پن کی حد تک شوق ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹا یورپ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور موجودہ برق رفتار دَور میں پیسہ کمانے والی مشین بن جائے۔ والدین کو انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں بچے کو یہ ہی سیکھایا جاتا ہے پیسہ جیسے مرضی آئے آنا چاہئے۔
میں واضح کرتا چلوں کہ میں بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے بالکل خلاف نہیں ہوں’ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے تو پاکستان کا نام روشن کریں گے’ لیکن ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے جو والدین نے اپنی اولاد کو سیکھانا ہوتا ہے’ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اُسے دنیا کی کسی چیز کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں ہوتا ‘ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوا کرتی ہے’ معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل بچوں کی پہلی درس گاہ کی ہی توجہ اپنی اولاد پر نہیں ہے’ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لیکر چلنے والے لوگ ہی دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر پاتے ہیں’ ہماری تیز تراریاں ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں’ اولاد کیلئے انگریزی سکولوں میں اُس سکول کو منتخب کیا جاتا ہے جہاں مکمل انگریزی رسم و رواج پائے جاتے ہیں پھر والدین فخر محسوس کرتے ہیں ہمارا بیٹا انگریز بن رہا ہے۔
Child Study
آج کل کے والدین بچے کو پیدا ہوتے ہیں معاشرے کی تباہی سے آگاہ کرتے ہیں مثلاً بیٹا آپ ڈاکٹر بنو گے تو آپ مریضوں کو چیک اَپ کرو گے ایک دن میں ہزاروں روپے کما لو گے’ والدین یہ نہیں کہتے بیٹا آپ ڈاکٹر بنو گے انسانیت کی خدمت کرنا پیسے کو اپنا دین ایمان مت بنا لینا ‘ پیسوں کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے مت کھیلنا’ ڈاکٹری اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعت ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے اللہ کی دی ہوئی نعمت سے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرو’ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کی بنیادی تربیت ہی صحیح نہیں کر رہے جس کی وجہ سے خود بھی اپنی اولاد کی بدتمیزی کا شکار ہو جاتے ہیں’ اور پھر پورے محلے اور رشتہ داروں میں اپنی اولاد کی برائی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس اولاد کو پڑھایا لکھایا آج ہمیں دھکے دے کر ہمارے ہی گھر سے باہر نکال دیا’ والدین اپنا گریبان نہیں جھانکتے ہیں کہ ہماری ہی تربیت کا نتیجہ ہے یہ سب’ ظاہر ہے بھئی! انگریزی ماحول میں تو ماں باپ’ بہن ‘ بھائی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ”اسلام” میں مقام حاصل ہے۔
اس پیرا گراف کو ایمانداری سے پڑھیں آپ نے اپنی اولاد کو اس تعلیم کے بارے میں آگاہ بھی کیا ہے؟ عمل کرنے کی بات تو دور کی ہے۔ والدین کی خدمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولۖ نے یہ بیان فرما دیا کہ والدین کی خدمت ساری عبادتوں پر مقدم ہے’ چنانچہ قرآن کریم میں والدین کی خدمت کے بارے میں ایک دو نہیں بلکہ متعدد آیات نازل فرمائیں۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی حضور اقدسۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور جہاد سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائیں اور اس پر مجھے اجر و ثواب عطا فرمائیں’ صرف اسی غرض سے جہاد میں جانا چاہتا ہوں۔
حضور اقدسۖ نے فرمایا کہ کیا تم واقعی ثواب حاصل کرنے کے لئے جہاد کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ، جی! یارسول اللہ’ میں صرف ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں، آپۖ نے فرمایا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں’ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے والدین زندہ ہیں’ آپۖ نے فرمایا کہ جائو او رجا کر ان کی خدمت کرو’ اس لئے کہ اگر تمہیں اَجر حاصل کرنا ہے تو پھر والدین کی خدمت کرکے تمہیں جو اَجر حاصل ہو گا وہ اَجر جہاد سے بھی حاصل نہیں ہو گا۔بھئی! یہ ہے مسلمان کی تربیت جسے آج کل سب والدین بھول گئے ہیں اور اولاد کی ٹھوکروں کا شکار ہیں۔
Old Parents
یورپ میں والدین کی کیا قدر ہوتی ہے اس پر تھوڑا نظر ڈالتے ہیں: یورپ میں والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو انہیں ”اولڈ ایج ہوم” میں جمع کرا دیا جاتا ہے اور اولاد اپنے بوڑھے والدین سے ملنا تک بھی پسند نہیں کرتی’ یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ جب والدین ”اولڈ ایج ہوم” میں انتقال کر جاتے ہیں تو اولاد کو اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کے والد یا والدہ انتقال کر گئے ہیں تو آگے سے اولاد کا جواب ہوتا ہے کہ ان کی تدفین کروا دیں اور جو اخراجات ان کی تدفین میں آئیں مجھے اس کا بِل بھیج دیں یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کا چہرہ تک دیکھنے کا ٹائم نہیں نکالتی۔یہاں میں آپ کو ایک سچا واقعہ بتاتا چلوں گائوں کے کنویں پر تین عورتیں پانی بھر رہی تھیں’ ایک عورت کا بیٹا گزرا تو اس کی ماں بولی ”وہ دیکھو! وہ میرا بیٹا ہے’ انگلش میڈیم میں پڑھتا ہے”۔ بیٹا ماں کو دیکھ کر گزر گیااور کچھ بات نہیں کی۔ کچھ ہی دیر بعد دوسری عورت کا بیٹا دکھائی دیا تو اس کی ماں کہنے لگی ”وہ دیکھو! وہ میرا بیٹا ہے’ بی ایس سی میں پڑھ رہا ہے” یہ بھی ماں کو دیکھ کر گزر گیا اور کچھ نہیں کہا۔
پھر کچھ دیر بعد تیسری عورت کے بیٹے کا گزر ہوا اس نے جب اپنی ماں کو دیکھا تو قریب آیا اور پانی سے بھرا گھڑا اس سے لے کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور دوسرے ہاتھ میں بالٹی پکڑ لی اور ماں سے کہا: ”چلو اماں! گھر چلتے ہیں” اس کی ماں نے دونوں عورتوں کو دیکھتے ہوئے کہا یہ ڈاکٹر بن رہا ہے اور ساتھ میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے”۔ اس ماں کی چہرے کی خوشی دیکھ کر باقی دونوں عورتوں کی نظریں جھک گئیں اس واقعہ کا مطلب صرف یہ ہے کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی تمیز اور اخلاق نہیں سیکھے جا سکتے۔
آخر میں کہتا چلوں کہ اولاد کو بگاڑنے اور سنوارنے میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے’ جیسے والدین اولاد کو صبح سویرے جگا کر کالجز، یونیورسٹیوں میں بلا ناغہ بھیجتے ہیں اسی طرح والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تعلیم پر بھی توجہ دیں’ نماز کا پابند بنائیں۔ دنیاوی تعلیم صرف اور صرف زمین کے اوپر چلنے والے کو ہی فائدہ دے سکتی ہے زمین کے نیچے (قبر میں) جاتے ہیں دینی تعلیم کا پوچھا جائے گا۔ ہاں اگر دنیاوی تعلیم حاصل کر کے خدا کی مخلوق کی خدمت کی ہو گی تو وہ ضرور قبر میں انسان کے کام آئے گی۔ میرے خیال میں ”امی” ”ابو” والا دور ہی اچھا تھا۔ ”موم” ”ڈیڈ” کا نتیجہ سامنے ہے۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ میری اصلاح ضرور کریں مجھے اصلاح کی بے حد ضرورت ہے۔