کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) طبی ماہرین نے پاکستان میں جاں بحق ہونے والے 5 سال سے کم عمر بچوں کے مرنے کی سب سے بڑی وجہ نمونیا کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے نقشے پر ہم اس وقت چوتھے نمبر پر ہیں جہاں نمونیا کی شرح سب سے زیادہ ہے، والدین کا بچوں کو ویکسینیشن کورس نہ کروانا نمونیا ہونے کی اہم وجہ ہے۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے) سندھ اور جی ایس کے کے اشتراک اور او ایم آئی اسپتال کے تعاون سے نمونیا کے عالمی دن پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں پی پی اے کے صدر ڈاکٹر غلام رسول برڑو، سیکریٹری جنرل پی پی اے (سینٹر) پروفیسر ممتاز لاکھانی، قومی ادارہ صحت برائے اطفال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا، پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن، کنٹری میڈیکل لیڈ جی ایس کے ڈاکٹر کاشف حنیف اورڈاکٹر ایم این لال نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ ہمارے ملک میں نمونیا ایک بڑا مسئلہ ہے، ہر سال 92 ہزار بچے اس بیماری کے باعث مر جاتے ہیں، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام پاکستان میں بیماریوں اور اسکے حوالے سے عوام میں آگاہی کے لیے مختلف سیمپوزیم، ورکشاپس اور پروگرامز کا انعقاد باقاعدگی سے کیا جاتا ہے ، پولیو وائرس بھی پاکستان میں موجود ہے، سندھ میں ٹائیفائیڈ کا نیا حملہ ہوا جس پر قابو پانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں، عوام میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ممتاز لاکھانی نے کہا کہ اس اہم دن پر مدعو کرنے کا شکریہ، نمونیا بیماری کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ کیوں اور کیسے ہوتی ہے، ضرورت اس بیماری کے سدباب کی ہے، پاکستان میں مرنے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سب سے زیادہ بچے نمونیا کی وجہ سے مرتے ہیں، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کی گائیڈ لائن پر عمل کرنے سے بچوں کے علاج میں بہت مدد مل رہی ہے، سندھ میں ویکسین موجود ہے صرف بچوں کو لگوانے کی ضرورت ہے، ویکسینیشن کوریج کو 80 سے 90 فیصد تک پہنچانے کی ضرورت ہے، اب پاکستان میں نمونیہ سے بچاؤ کے لیے (ڈسپرزیبل ٹیبلیٹ) پانی میں حل ہو جانے والی گولیاں آگئی ہیں جس کے ذریعے بچوں کو نمونیا سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
پروفیسرجمال رضا نے کہا کہ ماں کا دودھ پینے سے بچے بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں، ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ ہم دنیا کے نقشے پر چوتھے نمبر پر کھڑے ہیں جہاں نمونیا سب سے زیادہ ہے، نمونیا کے جراثیم منہ سے آتے ہیں اور یہ ایک سے دوسرے کو لگتا ہے، پاکستان میں بھی آگاہی واک اور پروگرامز کے انعقاد کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نند لال نے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہر سال سیمینار منعقد کرتا ہے جو کہ ایک انتہائی مثبت قدم ہے، نمونیا اور ڈائریا بچوں میں پائے جانے والا اہم مسئلہ ہے جو بچوں کی اموات کا سبب بن رہا ہے، ہر سال پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات ہو رہی ہیں، نمونیا سے بچاؤ کا طریقہ بہت آسان ہے صرف عمل درآمد کی ضرورت ہے، پاکستان کی آبادی میں 15 فیصد 5 سال سے کم عمر بچے ہیں جن کی صحت کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، ہمیں ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کی گائیڈ لائن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، پسلیاں چلنا، سانس لیتے وقت سینے میں کھڈے پڑنا نمونیا کی علامات ہیں، پاکستان میں بچوں کا غلط طریقہ علاج (اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال) اور علاج نہ کروانے کی شرح 80 فیصد ہے، پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کو اس بیماری کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، بنگلادیش جیسے ملک میں نمونیا اور ڈائریا کی وجہ سے بچے نہیں مر رہے جو کہ قابل تعریف بات ہے۔
نوزائیدہ بچوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بچے کا الٹیاں کرنا، گلے سے سانس لیتے ہوئے آواز آنا اور کچھ نہ کھانے والے بچوں کو فوری اسپتال میں داخل کروایا جائے کیوں کہ ان کے مرنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں، کھانسی آنا، زور زور سے سانس لینا، پھسلیاں چلنا نمونیا کی علامات ہیں، حفاظتی ٹیکے لگوانے، ہاتھ دھونے، ماں کا دودھ، دھویں سے بچاؤ اور متوازن غذا کے استعمال سے بچوں کو نمونیا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے، نمونیا سے بچاؤ کے لیے اب نئی دوا متعارف کروائی گئی ہے جس کے ذریعہ خود کو ان بیماریوں سے محفوظ کیا جاسکتا ہے، ہم سب کو مل کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ سیمینار میں تمام اہم موضوع زیر غور لائے گئے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو بچانے اور اچھا ماحول فراہم کرنے کے لئے اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر کاشف حنیف نے کہا کہ ہمارے لیے معلومات اور آگاہی ہونا بہت ضروری ہے، انہوں نے سیمینار میں شریک تمام طبی ماہرین اور پروفیسرز کا شکریہ ادا کیا۔
سیمینار کے اختتام پر ایکسپریس میڈیا گروپ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر اظفر نظامی نے تمام مقررین کا شکریہ ادا کیا جبکہ تمام مقررین کو اعزازی شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔