وہ روتی مائیں، بے ہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیںاے پیارے بیٹے!اے پیارے بھائی !سفید لباس تھا سرخ کیوں ہے؟ جیسے جیسے دسمبر قریب آتا ہے ہر باپ ہر ماں کا دل اک انجانے خوف ، اندیشوں سے دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے اور والدین کے لبوں پر یہ دعا ہوتی ہے یا الہٰی!ایسا دسمبر پھر کبھی نہ آئے جب بچے سکول جائیں اور گھر واپس ہی نہ آئیں۔ ماںگھر کے دروازے پر کھڑی ہے اور اپنے لخت جگر ،اپنے راج دلارے کا راہ تکتی ہے کہ اس کا بیٹا کب آئے گا اور وہ اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلائے گی۔مگر 2014 ء جاتے جا تے ان ماوئں پر قیامت ڈھا گیاجن کے جگر گوشے خونی دسمبر کا شکار ہوگئے۔ 16 دسمبر کو اس کی چیزیں ،اس کے کپڑے، اسکے دوست سب انتظار کرتے رہے اور وہ پھولوں کے دیس میں چلا گیا۔آج آرمی پبلک سکول کے دلسوز سانحے کو چار سال بیت چکے ہیں ،ان 144معصوم شہداء کی بلند حوصلہ ماوئں کو سلام ،جن کے پھول دسمبر کی ٹھٹھرتی سردیوں میں اپنی ماں کی آغوش سے گرماتے تھے وہ گزشتہ چار سالوں سے سرد راتوں میں اکیلے ابدی نیند سو رہے ہیں۔سید فضل حسین کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔جبکے سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کوچار سال ہو گئے لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی ان دونوں کی راہ تک رہے ہیں۔
گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔گھر ان کے جانے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کرتا ہے ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا اس کی پہلی پوزیشن تھی۔ بچوں کے والد نے کہا کہ ان دونوںکے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے پر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جا ن دی۔گل شہزاد خٹک نے بتایااس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی میں اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کی آواز آئے گی جی ابو جی لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔زرگ تحسین اللہ درانی کے دو بچے سکول حملے میں شہید ہو ئے۔ان کے بس دو ہی بچے تھے اور دونوں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔شہید حسن زیب کے والد نے ایک کمرے میں بیٹے کے استعمال کی تمام چیزیں رکھ دی ہیں۔ بچپن کی تصاویر بھی حسن زیب کے کمرے کی زینت بن گئی ہیں،جہاں اس کے استعمال کے پرفیوم کیساتھ یونیفارم اور دیگر سامان بھی پڑا ہے لیکن گھر میں اب صرف حسن زیب کی یادیں ہی ہیں۔
15 سالہ اسامہ طاہراعوان بھی ان شہداء میں شامل ہے، اسامہ کے والدین کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں۔ اسامہ کی استعمال کی اشیاء آج بھی کمرے کی زینت ہیں، میڈل سے لے کر کتابیں اورکیمرہ اس کی یاد دلاتا ہے۔آڈیٹوریم ہال میں دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور بچوں کی جان بچانے کے دوران قوم کی بہادر بیٹی بینش نے شہادت پائی، ہمت اورحوصلے کی نئی داستان رقم کرنے پربینش شہید کو تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے میں دسویں جماعت کا طالب علم اسفند خان بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا، اسفند ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس لئے والدین کی انسیت بھی اس سے زیادہ تھی۔ ماں باپ کے اپنے جگر کے ٹکڑے کا سامان دیکھ کر ہی شب و روز گزار رہے ہیں۔ مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔
شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم کہیں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔6سالہ خولہ کا خون بھی ان132 معصوموں میںشامل ہے ۔ننھی خولہ کا سکول میں پہلا دن تھا اور وہ جلدی سے گھر اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی تھی۔ان سفاک درندوں نے اسے بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا۔آٹھویں جماعت کے عذیر علی نے حملہ آوروں کو دیکھا اور اپنے دوستوں کے اوپر لیٹ کر ان کی ڈھال بن گیا۔ 13گولیاں لگنے کے بعد وہ زندہ نہیں بچا مگر وہ اپنے ساتھیوں کو بچانے میں کامیاب رہا۔ 14 سالہ فہد حسین نے ایک دروازہ کھولا تاکہ اس کے دوست وہاں سے نکل سکیں۔ وہ دروازے پر موجود رہاتاکہ ہر ایک کے انخلاء کو یقینی بناسکے۔ اسی کوشش کے دوران اسے نشانہ بنادیا گیا۔
جو کبھی نہ بجھ سکے گی تم ایسی شمع جلا گئے ہو
اس خونی کھیل میں دہشت گردوں نے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی،اگر اس میںہدف بننے والوں کی مظلومیت کو جمع کیا جائے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خوفناک حملہ ثابت ہوتا ہے۔۔آرمی پبلک سکول پشاور میںموت کا بھیانک رقص ہوا۔دشمن عقبی راستے سے آئے۔ سکول کی دیوار کے ساتھ سیڑھی لگائی اور اندر داخل ہوئے۔حملہ دس بجے کے قریب ہوا، وحشیوں کو جہاں بھی معصوم فرشتے نظرآئے انہیں خون میں نہلا دیا۔ دہشتگردوں کی تعداد 7 تھی جنہیں پاک فوج کے جوانوں نے مار گرایا۔ اس حملے کی خبر سن کربے قرار والدین جب سکول پہنچے تو ہر طرف ماتم ہی ماتم تھا، سکول دیواریں لہو رنگ تھیں۔ آہ !بچوں کو نور علم سے آراستہ کرنے والے سکول کی پرنسپل، اساتذہ اور دیگر عملہ بھی اپنے ہاتھوں سے سینچے گئے ان ننھے پودوں کو بچاتے بچاتے دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔آرمی پبلک اسکول پشاور پردہشت گردوں کے حملے کو چارسال مکمل ہوگئے ہیں والدین کے زخم آج بھی تازہ ہیںاور جو وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے۔ اس روز سکول میں ہر طرف خون اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور اگر پیچھے کچھ بچا تو صرف شہید بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں !! آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے میں بچ جانے والی بچی ایمن نے واقعے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا: ”میں اپنی کلاس میں موجود تھی کہ 3 گندے لوگ اندر داخل ہوئے جن کے ہاتھوں میں ایسی چیزیں تھی جن سے خوفناک آوازیں آرہی تھیں جو میں فلموں میں سنتی تھی۔ وہ لوگ کسی اور ہی زبان میں چیخ رہے تھے۔
اسی دوران میری ٹیچر نے مجھے کہا کہ اپنی ڈیسک کے پیچھے چھپ جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں باہر نہیںآنا۔”ایمن نے بتایا کہ کچھ دیر بعد ”میں نے بچوں کی درد بھری چیخوں کی آوازیں سنیں اور میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے لیکن بچوں کا خون دیکھ کر میں بہت ڈر گئی اور ڈیسک کے پیچھے بہت دیر تک چھپی رہی۔ میری ٹیچر بھی نہیں بول رہی تھی اور ان کا خون نکل رہا تھا۔ایمن نے معصومیت بھری آواز میں بتایا: ”نہیں معلوم کہ کتنی دیرتک ڈیسک کے پیچھے چھپی رہی لیکن کافی دیر کے بعد ایک اچھا انسان اندر داخل ہوا اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ باہر آجاؤ، اب تم محفوظ ہو۔ اس کے بعد میں باہر آئی تو میرے والدین کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔
ایمن نے کہا کہ میں ایک بہادر بچی ہوں اور اسی اسکول میں تعلیم جاری رکھوں گی، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلوں گی اور بڑی ہوکر ڈاکٹر بنوں گی۔”یہ کہانی تو صرف ایمن کی ہے لیکن اس واقعے میں 100 سے زائد بچے زخمی ہوئے، ان سب کے ذہنوں میں یہ اندوہناک واقعہ آج بھی موجود ہے اور شہدا کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا ہے۔شہداء سانحہ پشاور کے لواحقین کی آنکھوں سے آنسو اب تک جاری ہیں۔ ۔ روتی بلکتی مائیں اپنے لخت جگر کو یاد کرتیںاپنے بچوںکی تصویریں تکتی رہتی ہیں ۔کئی ماں باپ اور بھائی بہن بھی اپنے پیارے بیٹے بیٹی اور بھائی بہن کے اسکول میں گزارے گئے لمحات کی یادوں اور گزرے ہوئے وقت کو یاد کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے غم کبھی نہیں بھْلا یا جا سکے گا۔سکول حملے کے بعد فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور واقعے کے ایک سال بعد یعنی دسمبر 2015 میں چار افراد کو سزائے موت دی تھی جن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ آرمی پبلک سکول پر حملے میں ملوث تھے۔ جبکہ پاک فوج کی جانب سے ہی دہشتگردوں کی مکمل سرکوبی کیلئے جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا تھا، آپریشن کے دوران پاک فوج کے جوانوں کی بھرپور کارروائیوں کے باعث طالبان دہشتگردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ ارض پاک کودہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کیلئے ملک کے کونے کونے میں آپریشن رد الفساد بھی کامیابی سے جاری ہے ۔
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے بچوں سے ڈرتا ہے بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے