تحریر : ارم فاطمہ انسانی زندگی رشتوں سے عبارت ہے۔رشتوں کے بغیر انسان ایسے ہی ہے جیسے بغیر رنگوں کے ایک سادہ کینوس۔۔زندگی کے کینوس پر سب سے خوبصورت رنگ والدین کی محبت اور شفقت کا ہے جو ہر غرض بناوٹ اور کسی تقاضے سے پاک ہے۔اس رشتے کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ اپنی انتھک محنت اور خلوص اور شب کی ریاضتوں سے فرد کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اس میں اخلاص ، رواداری ،ایثار، محبت ،اپنایت اور قربانی کے احساس کو ابھارتے ہیں اور فرد کی ایسی تصویر بناتے ہیں جو معاشرے کے کینوس پر اپنے خوبصورت نشان چھوڑ جاتا ہے۔ بچوں کے لئے والدین کی حیثیت ایک سائبان کی طرح ہے جو انہیں اپنی چھاؤں میں موسم کی سرد اور گرم ہواؤں سے بچاتے ہیں۔ان کے کھانے پینے سے لے کر ان کی تعلیم وتربیت کے علاوہ انہیں دنیا کی ہر اچھی بری باتوں اور نیکی و بدی میں تمیز سکھلاتے ہیں۔
والدین کی بچوں سے محبت اور ان کی پرورش کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 1992ئ میں امریکی کانگرس نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت جولائی کے چوتھے اتوار کو والدین کا عالمی دن منایا جائے۔اس سے قبل صرف ماؤن کا والمی دن منایا جاتا تھا جس کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوششوں سے ہوا وہ اس دن کو مقدس دن کے طور پر منانا چاہتی تھیں۔8 مئی 1914ئ کو امریکی صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طور پر ماؤں کا والمی دن کہا۔۔ماؤن کے عالمی دن کی کامیابی کے بعد والد کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 1966ئ میں امریکی صدر لنڈن جونسن نے جون کے تیسرے اتوار کو ”فادرز ڈے ”قرار دیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مغربی معاشرے کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ والدین کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے دن مخصوص کریں اس پر عام تعطیل کا اعلان کریں وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں پھیلی سماجی اور اخلاقی قدروں کے زوال اور رشتوں کی بدصورتی کو بچانے کے لئے اور پھر سے ایک متحدہ خاندانی نظام کی تشکیل کے لئے اور رشتوں کو قریب لانے کے لئے اور اپنی نسل کو تباہی وبربادی سے بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔
Culture
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہے کہ غیروں کی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے سے سماجی ترقی کی راہیں کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیںان والمی دنوں کو منانے کی بجائے والدین کو ان کا اصل مقام دینے اور ان کا احترام کرکے ہی انہیں حقیقی معنوں میں خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔محض عالمی دن منانے سے قوموں کا وقار بلند نہیں ہوتا۔ والدین کے معاملے میں صرف یہی کافی نہیں کہ ان کی مالی ضرورت پوری کردی جائے ان کے مادی تقاضے پورے کئے جائیں یوں بھی عمر رسیدہ افراد کی ضروریات کم ہوتیں ہیں ان کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کے ساتھ وقت گذارے ان سے باتیں کرے ان کی باتیں سنے ان سے ہمدردی محبت اور اپنائیت کا اظہار کرے ان کی تکلیفوں کا ازالہ کرے انہیں آرام پہنچائے اسلام کی عمومی تعلیمات سے بھی اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔
اسلام میں ہجرت اور جہاد دو ایسے اعمال ہیں جن کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے لیکن والدین کے حقوق کی ادائیگی سے لاپرواہ ہو کر اور انہیں ناراض کر کے ان احکام کی انجام دہی کی اجازت نہیں دی گئی۔ خواہ طبعیت پر کتنا ہی گراں ہو ان کا حکم بجا لانا اولاد کا فرض ہے رسول اللہ ? نے ایسے چند اشخاص کا ذکر کیا جن کی طرف سے قیامت کے دن اللہ تعالی اپنی نگاہ پھیرے گا اور وہ جنت میں داخلے سے محروم ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے والدین کا نافرمان ہو۔
جس شخص کو اپنے والدین کی خدمت کی توفیق ملی ہو اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے اور جس شخص نے انہیں بڑھاپے میں پایا ہو اور ان کی خدمت نہ کی ہو انہیں جہنم میں داخلے کی حبر دی گئی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمدین اسلام کے فرائض سے دور ہوتے جا رہے ہیںجن میں سے ایک والدین سئے ”حسن سلوک ”ہے۔مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہومز بن رہے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں اب سے چند برس قبل تک اولڈ ہومز کا کوئی وجود نہیں تھا شاید اس لئے کہ ماں باپ کے لئے گھروں میں بھی جگہ تھی اور دلوں میں بھی لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔
Life
موجودہ دور کی نسل اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور خوشگوار انداز میں بسر کرنے کے لئے مادی طور پر اس قدر مصروف ہے کہ اسے اپنے والدین کو سہارا دینے کی فرصت نہیں۔وہ تنہائی کا شکار ہیں۔ان کی سرد مہری اور بے نیازی ان کی عظمت اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے اور ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی احساس محبت کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اولڈ ہومز اور فلاحی اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کراچی لاہور اسلام آباد اور دیگر شہروں میں یہ فلاحی ادارے اور ایدھی ہومز ہیں دو سال قبل جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں ہر روز 50 بزرگ افراد کو ایدھی سنٹر منتقل کیا جاتا ہے۔
جبکہ گذشتہ پانچ سال سے ملک بھر میں یہ شرح 50 فیصد بڑھی ہے یہ ایک لحہ فکریہ ہے اور آج کے دور کا المیہ بھی کہ وہ والدین جو اپنی زندگی اور خوشیوں کا مرکز اپنی اولاد بناتے ہیں انکے لئے سجدوں میں دعائیں کرتے ہیں آکر وقت میں وہی اولادان سے بے نیاز اور ان کی دعاؤں سے محروم زندگی گذارنے کو بہتر سمجھتی ہے۔والدین ایک سائے کی طرح ہین جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں تب نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ سر پر موجود رہتا ہے جونہی یہ سایہ اٹھ جاتا ہے تب ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ جو لوگ والدین کی قدر سے آشنا ہیں اور انہیں حق تعالی کی رحمت تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہت خوش قسمت انسان ہین۔
خدارا سوچیے آج ہم اپنی زندگی میں والدین کو کیا مقام دے رہے ہیں ؟ کیا ہم ان کی ایک شب کی ریاضت کا حق بھی ادا کرسکتے ہیں۔کیا ہم انہیں اپنے ان گنت بے حساب لمحوں میں سے چند لمحے انہیں اس احساس کے ساتھ عنایت نہیں کر سکتے کہان کی عزت اور مقام آج بھی ہمارے لئے سب سے مقدم اور ضروری ہے صرف ایک عالمی دن پر انہیں ان کی اہمیت کا احساس نہ دلائیں بلکہ اپنی پوری زندگی ان کے نام کر دیں تو بھی کم ہے۔اللہ ہمیں ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔