اللہ پاک نے بیٹی کو رحمت بنا کر ماں کی کوکھ اور پھر باپ کی گود میں ڈالا . جہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا وہ ظلم و ستم کی داستان تو اکثر سنائی دے جاتی ہے لیکن وہ گھرانے جہاں پر الٹرا ماڈرن ماں یا خود کو انگریزوں سے بڑا انگریز ثابت کرنے والا باپ گود کی بچی کے لیئے منی اسکرٹ خریدتے ہیں . بغیر بازو اور ننگی کمر کے ملبوسات پہناتے ہیں . گود کی بچی ہی کو کیا اکثر 10 ، 12 سال تک کی لڑکیوں کو بھی پاجامے پہنانا غیر ضروری سمجھتے ہیں انہیں نیکریں پہنائے گھماتے ہیں۔
جون جولائی کے موسم میں جب لوگ ہوا کو ترستے ہیں . یہ ٹائٹ جینز اور چست مختصر شرٹس میں بیٹیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. پھر برائے نام کپڑوں اور دوپٹوں سے بے نیاز یہ لڑکیاں ہر جگہ جا کر اپنی نسوانیت کا اشتہار لگاتی ہیں تو یہ والدین خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیئے اسے جائز ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا ذور بھی لگاتے ہیں . کبھی اسے اس کی مرضی قرار دیتے ہیں ،تو کبھی اسے اس کا حق قرار دینے میں زبان تھکاتے ہیں ، کہیں انہیں اپنا مذہب دکھائی دیتا ہے، نہ ہی اپنی معاشرت نظر آتی ہے ۔ جب ان لڑکیوں کیساتھ کوئی شرمناک واقعہ پیش آ جاتا ہے تو پھر دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ لوگ برے ہیں ، معاشرہ گندہ ہے ۔
ایک بچے کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔اسے جس ڈھنگ میں وہ چاہتے ہیں ڈھالتے ہیں ۔ جب شروع سے ہی اسے پورے اور ڈھکے ہوئے کپڑوں کا عادی بنائیں گے تو وہ کتنے بھی آزاد معاشرے میں چلی جائیں اپنی عزت احترام اور پردے کا مکم خیال رکھیں گی ۔ کیونکہ یہ معمول کی بات ان کی عادت میں رچ بس چکی ہو گی ۔ لیکن جب شروع سے ہی اسے لباس کے نام پر دھجیاں پہننے کی عادت ڈالیں گے تو جوان ہو کر تو یہ دھجیاں بھی انہیں بوجھ ہی محسوس ہوں گی ۔
عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے ۔ جب تک یہ چھپی رہتی ہے اپنی قیمت بڑھاتی ہے ۔ اور جیسے ہی بے حجاب ہو جاتی ہے تو کوڑیوں میں تل جاتی ہے ۔
کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹی تو انہیں رحمت بنا کر دی گئی تھی اسے چلتی پھرتی گناہوں کی دکان کس نے بنا دیا . ؟
تو افسوس صد افسوس ہزار بار دل کے انکار پر بھی دماغ سے ایک جواب آتا ہے کہ ان بچیوں کے بےحیا اور بے شرم والدین نے …
ہمارے سامنے فل سپیڈ میں گاڑی آ رہی ہو اور سگنل بھی گرین تو کیا ہم بے دھڑک سڑک پر چلنے یا سڑک پار کرنے لگیں گے ….نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یقینا حادثہ ہو جائیگا . … تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یا جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہیں جو ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں. ہم ٹریفک کے اصولوں کو جان جانے کے ڈر سے تو فالو جاتے ہیں لیکن معاشرتی اور مذہبی اصولوں کو فالو نہیں کرتے عزت جانے کے ڈر سے بھی…
کیا ہم اپنے ہی مذہب سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ معاشرے میں اس بغاوت کو اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ سمجھتے ہاں …
ایسی صورت میں معاشرے کی وہی بگڑی ہوئی اور بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے آج ہم سب نظر ملانے سے ہچکچا رہے ہیں .
کم لباسی میں آج ایسے مقابلے بازی شروع ہو چکی ہے جیسے کپڑے نہ ہوئے کوئی پنجرہ ہو گیا جس سے رہائی آج کی عورت کا نصب العین بن چکا ہے یا کچھ والدین کی جانب سے اپنی بیٹیوں سے محبت کا ثبوت ہی اپنی بیٹی کو کم لباسی کی اجازت دینا ہے .
پہلے آستین آدھے ہوئے پھر غائب ہی ہو گئے ،
پہلے گلے بڑے ہوئے، اب تو کندھے بھی کپڑوں سے آذاد ہو گئے،
پہلے کمر کے نام پر پیٹ ننگے ہوئے پھر تو بلاوز ہی غائب ہو گئے اور کپڑوں کے نیچے پہنے جانے والے( زیر جامے) کیڑوں کے نام پر اوپر آ گئے ،
پہلے پشت سے گلے کم ہوئے پھر پوری پشت ہی غائب تو گئی ،
پاجامے پتلون بنکر ٹخنوں سے اونچی کیا ہوئی دیکھنے میں وہ ایک لمبی نیکر ہی بن گئے ،
ایوارڈ شوز کے نام پر بے حیائی اور ننگے پن کا جو کنجر خانہ شروع ہوا ہے اس میں ان فنکاروں اور ان کے منتظمین کو ڈوب کر مر جانا چاہئیے جو ننگے ہو کر اور ننگے کر کے ایکدوسرے کو دوسری زبان میں یوں سراہ رہے ہوتے ہیں جیسے اس نے پارسائی کا کوئی امتحان یا پل صراط کا سفر کامیابی سے پار کر لیا ہو … شیطان کے یہ چیلے دن دہاڑے ہمارے سامنے محو رقص ہیں اور ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں. کیا مجبوری ہے ہماری یا ہماری حکومتوں کی؟
اگر آپ کو چلتی گاڑیوں کے سامنے اپنی بیٹیوں کو کھڑا کرنے کا شوق ہے ہی تو خدارا حادثات کا شکوہ مت کیجیئے…..
سننے والے بھی کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے ۔ کیوں کہ مرنے اور لٹنے والی بصد شوق تباہی کی گاڑی کے سامنے آئی تھی ۔ سو افسوس کیسا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ
حفاظت چاہیئے تو مذہب اور معاشرت کے دائرے میں آجاو ۔۔ورنہ اپنی زبان بھی کاٹ کر پھینک دو ۔ تاکہ شکایت نہ کر سکو۔