حرس و حوس کا بھوت سوار ہونے پر گھر سے نکلنے والی ہوا کی بیٹیاں ناصرف اپنے والدین کی عزت تار تار کر دیتی ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی بھی جہنم بنا کر بقیہ خاندان کو ہمیشہ کیلئے تباہ و برباد کر دیتی ہیں جس کے بھیانک نتائج خاندانوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ چوک اعظم میں بدبخت نوجوان نے لرزہ خیز وارادت میں پہلے بیوی بعد ازاں سسر 2 سالوں اور سوتیلے بیٹے کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ دوسری واردات میں چوبارہ کے علاقہ میں گھر میں دودھ لینے کیلئے آنے والے آڑھتی کے ملازم کے ساتھ فرار ہونے والی لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور پھر درخت کے ساتھ پھانسی پر لٹکانے کا احوال کچھ یوں ہے۔
وہ والدین جو اپنے بچوں خصوصاً بیٹیوں کیلئے رات دن محنت مشقت کر کے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شادی بیاہ اور رہائش کا بندوبست سمیت بہت سے ناز و نخرے برداشت کرتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ یہ ساری محنت بعض خاندانوں پر قیامتِ صغراء بن کر ٹوٹتی ہے۔ جب ان کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہو جائے اور خصوصاً سوشل میڈیا موبائل اور کیبل جیسی خباثت کے باعث ہوا کی یہ بیٹیاں والدین کی تمام محنت کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے گھر کی دہلیز پھلانگ جاتی ہیں۔
اور پھر نہ صرف والدین کی عزت کو تار تار کر دیتی ہیں بلکہ خود بھی جہنم کے گڑھے میں دھنس کر اپنی زندگیاں برباد کر لیتی ہیں۔ جس کے بھیانک نتائج دُشمنیوں کی صورت میں خاندانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ضلع لیہ کی تحصیل چوبارہ کے علاقہ میں اجتماعی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی لڑکی کی کہانی انتہائی لرزہ خیز ہے۔ جس سے انسانیت شرمندہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
بصارت سے محروم اللہ دتہ جگول کی مقامی مدرسے سے فارغ التحصیل مزمل بی بی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیطانی جال میں پھنس کر اپنے آشناء کے ساتھ گھر سے زیور تلائی اٹھا کر فرار ہو گئی جسے بدبخت آشناء نے اپنے 3 دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہوس کا نشانہ بنا ڈالا اور پکڑے جانے کے خوف سے گلا دبا کر مارنے کے بعد درخت کے ساتھ لٹکا دیا۔ اور تاثر دینے کی کوشش کی کہ لڑکی نے خود سے خود کشی کر لی ہے۔
چند ماہ قبل نواں کوٹ میں غلہ منڈی کے تاجر فتح پور کے چکنمبر 250 ٹی ڈی اے کا ثاقب عرف ساقی ملازم تھا۔ جو کہ مقتولہ (مزمل بی بی ) یعنی حاجی اللہ دتہ جگوال کے گھر سے دودھ لینے جاتا تھا کہ اسی دوران ثاقب عرف ثاقی نے مزمل بی بی سے ناجائز تعلقات استوار کر لیئے اور اسے شادی کے جال میں پھنسانے کیلئے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیئے۔ اسی آشنائی کے نتیجہ میں مزمل بی بی جس کی عیدالفطر کے بعد شادی کی تاریخ طے تھی آنکھوں سے معذور باپ ، والدہ اور چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کو سوتا ہوا چھوڑ کر فرار ہو گئی۔ صبح علم ہونے پر والدہ نے مزمل بی بی کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ لیکن ثاقب اور مزمل بی بی آڑھت دکان کی بالائی منزل پر چھپے ہوئے تھے۔
جہاں پر ثاقب عرف ثاقی نے اپنے 3 دیگر ساتھیوں عارف اترا ، زمان اور عرفان احمد کو بھی دعوت گناہ دی اور چاروں نے خود بھی شراب پی اور مزمل بی بی کو بھی شراب پلا ڈالی۔ اور پھر مزمل بی بی عصمت تار تار کر ڈالی۔ اس دوران مزمل بی بی نے گینگ ریپ پر سخت مزحمت کی اور وہ چیختی چلاتی رہی۔ جب وحشی درندے باز نہ آئے تو مزمل بی بی نے چھت سے نیچے کی جانب بھاگنے کی کوشش کی اور اس دوران اس کے پائوں پر شدید چوٹ بھی آئی۔ ملزمان اس کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور اس کی آواز کو دبانے کیلئے گلا دبا دیا۔ جس سے شدید زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ بے سد ہو کر گر گئی۔
Moazzam Khan
اور خالق حقیقی سے جا ملی۔ ملزمان نے سارا منظر دیکھا تو خوفزدہ ہو گئے اور پکڑے جانے کے خوف سے مقتولہ کے جوتے پہن خود کشی کا ڈرامہ رچاتے ہوئے اسے درخت کے ساتھ لٹکا دیا۔ اگلی صبح راہ گیر نے درخت کے ساتھ لٹکی لاش دیکھ کر پولیس چوبارہ کو اطلاع دی۔ خیر ضلع بھر کی پولیس حرکت میں آگئی اور مختلف چینلز پر لڑکی کی لٹکی ہوئی لاش دکھائی گئی تو انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اور ملزمان کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے بھی اس واقعے کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے۔ بلکہ چند دن قبل ان کیلئے نواں کوٹ کے علاقہ میں ہیلی پیڈ بھی تیار کر لیا گیا۔ لیکن وہ نہ آسکے۔ اطلاع کے مطابق میاں نواز شریف کی آمد کسی بھی وقت متوقع ہے۔
دیکھتے ہیں مظلوم خاندان کو انصاف کی فراہمی اور ان کی مالی مدد کا کیا اعلان کریں گے؟ اس سے قبل چوک اعظم کے وارڈ نمبر 6 کے رہائشی معظم خان سلیمان خیل کو لرزہ خیز واردات میں درندہ صفت نڈیم نذر نے اس کے 2 سگے بیٹوں اور ایک سوتیلے بیٹے اور قبل ازیں اپنی بیوی کو بے دردی کے ساتھ ذبح کر ڈالا تھا۔ اطلاع کے مطابق 12 جون کو معظم خان جو کہ عمران الیکٹرونکس چوک اعظم میں ملازم تھا کو ملزم ندیم نذر دن کے دو بجے دکان سے موٹرسائیکل پر اٹھا کر گھر لے گیا۔
جس کے بعد گھنٹوں معظم خان واپس نہ آیا تو دکاندار کو تشویش لاحق ہوئی۔ معظم خان اس کے بیٹے حسن خان اورندیم نذر سے رابطو ں کی کوشش کی گئی تو ان کے فون بند پائے گئے۔ تشویش بڑھی تو دکان مالک جاوید رحیم نے معظم خان کے سوتیلے بھائی کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور ماجرہ سنایا جس کے بعد دونوں معظم خان کے گھر پہنچے اور دیکھا کہ گھر کو تالا لگا ہوا تھا لیکن اندر سے بدبو آرہی تھی۔ جس پر چوک اعظم پولیس کو اطلاع دی گئی۔ تالے توڑے تو گھر کے چھپر کے نیچے معظم خان کی لاش پڑی تھی۔ کمروں کے دروازے کھولے تو اس کے 18 سالہ بیٹے حسن خان اور 4 سالہ غضنفر خان ذبح ہوئے پڑے تھے۔
Nadeem Nazar
پولیس نے شک کی بنیاد پر ندیم نذر کے والد کو حراست میں لے لیا اور لاشیں پوٹ مارٹم کیلئے ہسپتال بھجوا دیں۔ ملزم ندیم نذر نے اگلے روز گرفتاری دے دی اور دوران تفشیش انکشاف کیا کہ وہ قبل ازیں فتح پور کے علاقہ میں اپنی بیوی مومنہ اور 8 سالہ سوتیلے بیٹے کو قتل کر چکا ہے۔ معظم خان کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ ڈی جی خان کا رہائشی ہے جو کہ روزگار کے سلسلہ میں دبئی بھی رہ چکا ہے۔ ڈی جی خان سے چوک اعظم کے سفر کی کہانی بھی حوا کی بیٹی کی ہی بے راہ روی کے گرد گھومتی ہے۔
مومنہ عرف صباء نہم کلاس کی طالب علم نے ڈی جی خان میں اپنے ہمسائے ندیم اکبر چانڈیہ سے محبت کی شادی کر لی اور اس کے ساتھ ملتان سے کراچی تک فرار رہی۔ علاقہ میں اپنی عزت اور شریکوں کے طعنوں نے بچنے اور معاشرے میں زندہ رہنے کیلئے معظم خان ڈی جی خان سے سکونت ترک کر کے چوک اعظم آگیا اور عمران الیکٹرونکس پر ملازمت اختیار کر لی ۔ بیوی نے گھر میں بیوٹی پارلر جبکہ 18 سالہ حسن خان نے چھوٹی سی دکان کھول کر روزگار کا سلسلہ بنا لیا۔ اور یوں زندگی بسر کرنے لگے۔ کچھ ہی عرصہ بعد کیا ہوا؟ کہ مومنہ ، صباء اور ندیم چانڈیہ کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کر لی اور دونوں کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ مومنہ والد کے پاس آگئی۔ شفقتِ پدر کے باعث مومنہ جو کہ امید سے تھی کو والد نے اپنے گھر میں رکھ لیا۔
اس دوران اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ہنظلہ رکھا گیا۔ جسے ندیم اکبر چانڈیہ کچھ عرصہ بعد چھین کر ڈی جی خان لے گیا۔ مومنہ نے قانونی چارہ جوئی کی اور بچہ واپس لے لیا۔ لیکن مومنہ عرف صباء اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی اور اس دوران چوک اعظم میں بھی ندیم نذر نامی نوجوان کے ساتھ تعلقات استوار کر لیئے۔ اور اپنے اسی والد جس نے اسے ایک بار پھر اُسے گلے لگایا تھا کو بلیک میل کرنے کیلئے اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروا کر اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈلوا دیا اور پھر ندیم نذر کے ساتھ شادی کی شرط منظور ہونے کے بعد رہائی دلوائی۔ ندیم نذر نے پولیس کو بتایا کہ مومنہ کی خالہ زاد کے ساتھ شادی طے تھی لیکن مومنہ کو بھی دوسرے محلے میں رکھا ہوا تھا۔
دوسری جانب نذر حسین نے اپنے بیٹے کی حرکات پر اس کو عاق کر دیا تھا۔ ڈی پی او لیہ غازی صلاح الدین ، ڈی ایس پی عزیز اللہ خان ، اور موجودہ ڈی ایس پی اعجاز رندھاوہ نے قتل کی تفشیش کی اور آخر کار ملزم ندیم نذر نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ 28 مئی کو فتح پور کے چکنمبر 305 ٹی ڈی اے سے ملنے والی نامعلوم لاش اس کی بیوی مومنہ کی تھی۔ چونکہ مومنہ بد کردار عورت تھی جس کے چوک اعظم کے کچھ لوگوں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ میرے منع کرنے کے باوجود منع نہ ہوتی تھی۔
جسے اس نے بھانجے اور دیگر شخص کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا۔ اس نے اپنے آٹھ سالہ سوتیلے بیٹے ہنظلہ کے قتل کا بھی اعتراف کیا اور بتایا کہ قتل کا علم اس کے سسر اور سالے کو ہو چکا تھا جس پر اسے وہ لوگ بلیک میل کر رہے تھے اور اس سے اس کی بہن کا رشتہ اور نقدی رقم کا تقاضہ کرتے ہے۔ جس پراس نے انہیں راستے سے ہٹا دیا۔
تھانہ چوک اعظم پولیس نے قاتل کے خلاف اس کے بھائی شیراز خان کی مدعیت میں جبکہ تھانہ فتح پور میں مومنہ اور ہنظلہ کے قتل کا مقدمہ اس کے پہلے شوہر ندیم اکبر چانڈیہ کی مدعیت میں درج کر لیا گیا۔ ڈی پی او لیہ کے مطابق قتل ہونے والے تمام افراد کی تفشیش پولیس نے خود کی اور اصل ملزمان کو سامنے لا کھڑا کیا ہے جو کہ کسی صورت سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔