والدین کی نا انصافی نے ایک اور جان لے لی

 Suicide

Suicide

تحریر: افضال احمد
والدین کے حقوق کیلئے تو بہت سے مضامین منظر عام پر لا چکاہوں’ جیسے والدین کے بے شمار حقوق ہیں ایسے ہی اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں’ آج اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق پر لکھنے کی توفیق دی۔ دین نے والدین کو اُف تک کہنے سے منع کیا ہے تو دوسری طرف والدین کو بھی اولاد کے حقوق سے مکمل آگاہ کیا ہے’ فرق بس اتنا ہے کہ ہم سب والدین کے حقوق کی کتابوں کا تو ڈھیر لگائے بیٹھے ہیں’ لیکن اولاد کے حقوق کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے’ دَور حاضر میں والدین کے حقوق پر تو بہت لوگ ”فوکس” کر رہے ہیں لیکن بیچاری اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں زبردست طریقے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے’ جس سے معاشرے میں تباہی پھیل رہی ہے’ والدین خود دین کو اچھی طرح نہیں سمجھ رہے تو اولاد کی کیا تربیت کریں گے؟ یہی وجہ ہے کہ نسل در نسل غلط تربیت کا رواج چل نکلا ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ جب سے ہماری امت پر سیاسی اور سماجی زوال کا آغاز ہوا، اس وقت سے یہ عجیب و غریب فضا بن گئی کہ دین کو ہم نے دوسرے مذاہب کی طرح صرف چند عبادتوں کی حد تک محدود کر دیا ہے، جب تک ہم مسجد میں ہیں یا اپنے گھر میں عبادت انجام دے رہے ہیں، اس وقت تو ہمیں اللہ اور اللہ کے رسولۖ کے احکام یاد آجاتے ہیں’ لیکن جب ہم زندگی کی عملی کشاکشی میں داخل ہوتے ہیں تو بازار میں پہنچتے ہیں’ یا سیاست کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں’ یا معاشرے کے دوسرے عملی گوشوں میں داخل ہوتے ہیں تو اس وقت دین کے احکام اور دین کی تعلیمات ہمارے ذہنوں میں نہیں رہتیں۔

ہمارے گھر کے قریب چند روز قبل ایک نوجوان نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کر لی’ اس نوجوان کو خودکشی تک لے جانے والا عمل اس کے والدین کا نا انصافی والا سلوک تھا۔ یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ہے آج کل توتقریباً ہر تیسرا گھر اس بیماری میں مبتلا ہے’ اس کی وجہ صرف اور صرف والدین کی اپنی غلط تربیت ہے’ والدین تو بن گئے لیکن تربیت میں منافقت بھری ہوئی ہے’ جب والدین کی اپنی تربیت میں منافقت بھری ہو گی تو آگے اولاد میں کیسے انصاف والا سلوک کر سکتے ہیں؟ یاد رہے میں تمام والدین کی بات نہیں کر رہا ہوں بہت سے والدین اولاد میں برابری کا سلوک روا رکھتے ہیں’ جن کی وجہ سے سماج ابھی باقی ہے’ اولاد میں انصاف کا سلوک کرنے والے تمام والدین کو میں سلیوٹ کرتا ہوں’ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنے والدین سے بے پناہ محبت کریں’ والدین کا نعم البدل دنیا میں کوئی نہیں۔

اب اس نوجوان کی خود کشی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے آپ خود فیصلہ کرکے بتائیں’ میرے ذہن میں جو کاشف کی مختصر کہانی ہے بیان کر دیتا ہوں’ فیصلہ آپ لوگ کریں گے’ خودکشی کی حقیقت کیا ہے میں نہیں جانتا۔ کاشف اور عامر دو بھائی ہیں جس نے خودکشی کی اس کا نام کاشف ہے اور یہ گھر میں بڑا تھا اور دوسرا بھائی جو چھوٹا ہے اس کا نام عامر ہے۔ کاشف کو بچپن سے ہی میں دیکھ رہا تھا کہ وہ بہت محنتی تھا’ اپنے ماں باپ کا گھر کے اخراجات میں اس وقت سے ہاتھ بٹا رہا تھا کہ جب اس کے منہ پر داڑھی موچھ بھی نہ تھی’ یعنی تقریباً کاشف پانچویں جماعت کا طالب علم ہو گا۔ وقت گزرتا گیا کاشف صبح سکول جاتا سکول سے آتے ہی ایک دکان پر کام کیلئے چلا جاتا جہاں وہ رات گئے تک چند ٹکوں کی خاطر سخت محنت مزدوری کرتا تھا۔

کاشف والدین کی خدمت کا اتنا زیادہ جذبہ رکھتا تھا کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں’ اپنے چھوٹے بھائی سے اتنی محبت کرتا تھا کہ کبھی اُسے اُٹھ کر پانی بھی نہیں پینے دیتا تھا’ اور اپنے بھائی کو کہتا تھا عامر آپ میرے چھوٹے لاڈلے بھائی ہو آپ کو کسی فکر میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے’ دل لگا کر پڑھائی کرو’ بڑے آدمی بنو’ گھر کا نظام میں اور ابو چلا لیں گے’ آپ کی سکول’ کالج کی فیس کا انتظام میرے ذمے ہے’ اب جب تک کاشف محنت کرتا رہا’ پیسہ کماتا رہا تو اس کے والدین نے اسے اپنی آنکھوں کا نور ‘سر کا تاج بنا رکھا تھا۔

گھریلو اخراجات کی فکر نے کاشف کو سکول’ کالج کی پڑھائی سے دور کر دیا بلکہ کالج کی تو شکل بھی بیچار ہ نہ دیکھ سکا’ میٹرک تک مر کھر کر تعلیم حاصل کی اور پڑھائی چھوڑ کر فل ٹائم محنت مزدوری کرنے لگا’ کاشف کے والد بہت کم کما پاتے تھے ‘ قصہ مختصر کہ کاشف نے پڑھائی چھوڑی’ چھوٹے بھائی کی کالج کی فیس’ ماں باپ کی دوائیاں و دیگر اخراجات کا بیڑا اٹھانے کیلئے دن رات محنت مزدوری کرنے لگا۔
کاشف اپنی تنخواہ میں سے تھوڑے تھوڑے پیسے اپنی بہن کی شادی کیلئے جوڑتا رہا’ اب ایک بہن تھی اس کی شادی کا وقت آگیا تو کاشف نے اپنے سارے سنبھالے ہوئے پیسے نکالے اور کچھ ادھار اُٹھایا اپنے چھوٹی بہن کے نکاح پر خرچ کر دیئے’ دھوم دھام سے بہن کی شادی کی’ اتنے میں عامر نے اپنی تعلیم ”ایم بی اے” مکمل کی اور ایک بڑے بینک میں نوکر لگ گیا’ اب کاشف کو یہ سن کر کہ چھوٹا بھائی اچھی ملازمت پر لگ گیا ہے’ جس کی تنخواہ بھی تقریباً 50 ہزار ہے تو بہت خوش ہوا’ کہ اب عامر گھریلو اخراجات میں میرا ہاتھ بٹائے گا’ لیکن یہ کاشف کی غلط فہمی تھی۔ خیر کاشف نے عامر کو کہا کہ آپ 6 مہینے گھر کے اخراجات میں مدد نہ کرو اپنے گھومنے پھرنے کے سب خواب پورے کرو’ بھرپور انجوائے کرو ‘ تا کہ آپ کی کوئی خواہش میری خواہش کی طرح ادھوری نہ رہ جائے’ گھر کا خرچہ میں دیکھ لوں گا’ اتنے میں کاشف کے والدین نے کاشف کی شادی کر دی۔

کاشف کی شادی کے ٹھیک 8 دن بعد گھر میں فساد شروع ہو گئے’ کاشف بیچارہ سارا دن کام کاج سے تھک ہار کر گھر آتا تو والدہ ماجدہ اسے اس کی کی بیوی کے خلاف غلط بھڑکاتی تھیں’ حالانکہ میں خود گواہ ہوں کہ کاشف کی بیوی بہت اچھی خاتون تھی۔ دراصل ماں باپ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ ہمارا بیٹا جو کماتا تھا ہمیں دیتا تھا’ اب بیوی کو بھی دینے لگا ہے ‘ ماں نے ٹھان لی کہ کاشف کی بیوی کو اس گھر سے نکالنا ہے’ مہینے کے شروع میں کاشف حسب معمول اپنی تھوڑی بہت جو تنخواہ تھی ماں کو دینے لگا’ تو ماں نے آگے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ”دفعہ ہو جائو ہمیں تمہارے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں اپنی بیوی کو دو جا کر اپنا پیسہ’ ہمارا خرچہ اُٹھانے کیلئے ہمارا پیارا بیٹا عامر موجود ہے”۔ جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے ماں نے کاشف کو کہا کہ تم چند ٹکے تو کماتے ہو’ عامر دیکھو ہمارا اتنا خیال رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے کتنا وسیع رزق دیا ہے’ تم تو ساری عمر چند ٹکوں پر ہی ملازم رہو گے۔

وقت گزرتا گیا کاشف کو جلی کٹی سنانے کے باوجاد تنخواہ بھی لیتے رہے’ روز بروز لڑائیاں جھگڑے بڑھتے گئے’ والدہ ماجدہ نے کاشف کے باپ کو بھی اپنے ساتھ اس سازش میں شامل کر لیا’ اور باپ بھی کاشف اور اس کی بیوی کے خلاف ہو گیا۔ کاشف کی بیوی گھر میں سخت گرمی میں بغیر پنکھا چلائے بیٹھا کرتی تھی’ پنکھا چلاتی تو کاشف کے والدین اسے یہ کہہ کر ٹوک دیتے کہ ”تیرا شوہر دو ٹکے تو کماتا ہے” ہم بجلی کا بل کہاں سے دیں گے’ بند کرو پنکھا’ قصہ مختصر کہ ان دونوں میاں بیوی میں بے حد محبت تھی’ ان بیچاروں نے بہت کوشش کی کہ ہمارا گھر بسا رہے’ کاشف کی بیوی بہت اچھی خاتون تھی کاشف کا ہر پریشانی میں بھرپور ساتھ دیتی تھی’ کاشف بیچارا اتنا پیسہ تو کماتا نہیں تھا کہ کرائے پر مکان لے کر اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہ سکے۔

انجام یہ ہوا کہ بیچاروں کی 7 ماہ کے اندر اندر طلاق ہو گئی’ طلاق کے فوراً بعد کاشف کے والدین نے عامر کی شادی کر دی اور اُس کی بیوی بہت تیز طرار ہے’ سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو عامر کی بیوی نے عامر کے والدین کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں’ لیکن عامر زیادہ پیسہ کماتا ہے اس لئے اس کے والدین اس کے اور اس کی بیوی کے آگے چوں تک نہیں کرتے’ یہ سارا سلسلہ دیکھ کر کاشف نے ٹینشن لی’ کاشف کہتا تھا بچپن سے لیکر آج تک میں نے اس گھر کیلئے اپنی جان مار ڈالی’ ماں باپ کا سہارا بنا ‘ اپنے چھوٹے بھائی کو کبھی کوئی کام نہیں کرنے دیا’ اسے اعلیٰ تعلیم دلوائی’ اور آج ان سب نے میری طلاق کروا کر مجھے ادھورا کر دیا’ یہی سوچیں کاشف کو موت کے منہ میں لے گئیں۔
میرے ناقص مشاہدے میں یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ جو اولاد بچپن سے لیکر جوانی تک اپنے گھر کی خوشیوں کیلئے اپنی خواہشات و جوانی قربان کر دیتی ہیں’ وہی اولاد آگے جا کر ماں باپ’ بہن بھائیوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتی ہے’ عامر چاہتا تو اچھا خاصا پیسہ کماتا تھا کاشف کو نوکری چھڑوا کر چھوٹی موٹی دکان کروا دیتا’ لیکن جہاں والدین پیسوں کے پجاری ہوں وہاں کسی اور رشتے سے کیا امید رکھنی؟ جب اولاد اپنے حقوق کی بات کرے تو والدین اولاد کو بدتمیز قرار دے دیتے ہیں۔ ذرا سوچو! یہ صرف کاشف کی کہانی نہیں’ ہر تیسرے گھر میں والدین اولاد کے ساتھ نا انصافیاں کر رہے ہیں۔والدین کے نزدیک کم کمانے والے کی گھر میں کم عزت’ زیادہ کمانے والے کی گھر میں زیادہ عزت ہوتی ہے’ گزرا ہوا برا وقت ہر کوئی بھول جاتا ہے۔ والدین ہوش کے ناخن لیں رزق اللہ تعالیٰ کی دین ہے’ اللہ کی زمین پر نا انصافیاں نہ کریں’ والدین اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق پر خود اور اولاد کو شکر کرنا سیکھائیں’ سماج میں کاشف جیسے بے شمار نوجوان موجود ہیں’ اولاد کی لاشوں پر ماتم کرنے سے کچھ نہیں ملے گا’ زندگیوں کو سنواریں۔

Afzaal Ahmad

Afzaal Ahmad

تحریر: افضال احمد