تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے ؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ”۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالو گے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذا ء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھائو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ”۔اس حدیث مبارکہ کا مطلب اور مدعا یہ ہے کہ جو اپنے مالک و خالق کو راضی رکھنا چاہے وہ اپنے والد کو راضی اور خوش رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کیلئے والد کی رضا جوئی شرط ہے اور والد کی ناراضگی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضگی ہے۔ لہٰذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا وہ رضائے الٰہی کی دولت سے محروم رہے گا۔لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ والد اگر شریعت کے خلاف حکم دے تو اولاد کے لئے اس حکم کا ماننا ضروری نہیں تاہم اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ والد کا احترام اور ان کی خدمت کرتے رہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے، اور اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں سوال کرنے والے صحابی کا نام مذکوہ نہیں ہے ، لیکن جامع ترمذی اور سنن ابی دائود میں مذکور ہے کہ معاویہ بن حیدہ قشیری نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ”مَنْ اَمَرُّ ؟”(مجھے کس کی خدمت اور کس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے ؟) یعنی اس بارے میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم حق کس کا ہے توسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ”اُمَّکْ” (تمہاری ماں کا) انہوںنے پوچھا ”ثُمَّ مَنْ؟”(پھر کس کا حق ہے) سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا :”اُمَّکْ”(تمہاری ماں کا)۔ انہوں نے پھر پوچھا ۔ ”ثُمَّ مَنْ؟”(اس کے بعد کس کا حق ہے)۔سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا ”اُمَّکْ” انہوں نے اس کے بعد پھر پوچھا ” ثُمَّ مَنْ؟” ( پھر ماں کے بعد کس حق ہے ؟)تو چوتھی دفعہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’ ماں کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ، اس کے بعد درجہ بدرجہ اہل قرابت اور رشتہ داروں کا حق ہے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ ان دونوں حدیثوں کا صریح مدعا یہ ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ کئی جگہ اس میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حمل اور ولادت میں اور پھر دودھ پلانے اور پالنے میں خصوصیت کے ساتھ ماں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی ذلیل ہو، وہ خوار ہو، وہ رسوا ہو ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون ؟ یعنی کس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے؟ ٔسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر ان کی خدمت او ر ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کر لے۔” ماں باپ کی خدمت اورانہیں سکون پہنچانا جنت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے اور اس کے برعکس ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی آدمی کو دوزخی بنا دیتی ہے پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کو پہنچیں تو اس وقت وہ خدمت اور سکون کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اور اس حالت میں ان کی خدمت اللہ کے نزدیک نہایت محبوب اور مقبول عمل اور جنت تک پہنچنے کا سیدھا زینہ ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کا موقع میسر فرمائے اور وہ ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا بڑھاپا پائے اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت تک نہ پہنچ سکے بلاشبہ وہ بڑا بدنصیب اور محروم ہے اور ایسوں کے حق میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانا ہے کہ وہ نامراد ہوں ، ذلیل و خوار اور رسوا ہوں۔
ایک شخص اپنے والدین کو بہت ستاتا تھا یہاں تک کہ والدہ فوت ہو گئی اور والد بوڑھا ہو گیا اور کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو گیا ۔یہ شخص اس وقت والد کو ستانے سے باز نہ آیا اور اس سے جان چھڑانے کی سوچ لی اور بیمار والد کو اٹھا کر کسی ویران کنوئیں میں پھینکنے کیلئے چل پڑا راستے میں والد نے کہا بیٹا کچھ دیر ٹھہر جائو خود بھی آرام کر لو اور میری ایک بات بھی سن لو چنانچہ اس نے بیمار والد کو زمین پر بٹھایا تو والد نے کہا کہ بیٹا میں بھی اپنے والد یعنی تمہارے دادا کو اسی کنوئیں میں پھینک آیا تھا ۔ یہ سن کر نوجوان کو حیرت ہوئی اور غور کیا تو کانپ اٹھا اور اپنا انجام بھی نظر آ گیا کہ اگر میرے والد نے اپنے والد کو ستایا اور کنوئیں میں پھینک دیا تھا اور میں بھی یہی کام کروں تو کل میرا بیٹا بھی میرا حشر یہی کرے گا اور کنواں میری قبر بنے گا ۔ نوجوان نے وہیں توبہ کی اور والد کو لے کر واپس گھر آگیا اور اس کی زندگی تک اس کی خدمت میں لگا رہا ۔ جو لوگ اپنے والدین کے نافرمان ہیں اس قصے میں ان کیلئے عبرت ہے اور سبق ہے کہ کل تمہاری اولاد بھی تمہیں اسی طرح ستائے گی جیسے تم لوگ اپنے والدین کو ستا رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اولیا ئے کاملین کے نزدیک اپنے ماں باپ کا چہرہ محبت سے دیکھنا اولاد کے لئے عبادت ہے چنانچہ جو اولاد اپنے ماں باپ کا چہرہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کیلئے دیکھتے ہیں تو انہیںایک حج مبرور یعنی مقبول اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اوراللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے ۔موجودہ دور میں بہت سی جگہوں پر اولاد والدین کے معاملہ میں بڑا سخت رویہ رکھتی ہے، ماں باپ اگر نصیحت کریں تو قطعاً نہیں مانا جاتا ۔ ایسے نافرمان افراد کو اپنی پیدائش کے مراحل کو یاد کرنا چاہئے اور یہ بھی کہ کس نے انہیں چلنا سکھایا ، کس نے انہیں بولنا سکھایا، کس نے ان کی پرورش کی اور کس کی بدولت آج ان کو یہ مقام ملا ہے ۔ میری گزارش ایسے والدین سے بھی ہے جن کا اپنی نافرمان اولاد سے واسطہ پڑا ہے کہ آپ انہیں بد دعا نہ دیں بلکہ ان کے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں والدین کی خدمت کی توفیق عطا فرما ئے، بلاشبہ والدین کی خدمت میں ہی حقیقی عظمت ہے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان ای میل: ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033