واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے واشنگٹن کے باہر نکل جانے کے اعلان پر اپنے سخت ردعمل میں یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے کہا کہ اس تاریخی معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔
ایک بیان میں ینکر کا کہنا تھا، ’’ہم (یورپی یونین اور چین ) مشترکہ طور پر قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کاروبار، سرمایہ کاروں اور محققین کو یورپ، چین اور دنیا بھر میں معاونت فراہم کریں گے، تاکہ کاربن گیسوں کے کم اخراج والی معیشت کی تعمیر کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔‘‘
ینکر نے یہ بات چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کے ساتھ اقتصادی بات چیت کے آغاز کے موقع پر کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات دنیا کو باور کرائی جائے گی کہ پیرس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے کہا، ’’ہمیں ضوابط پر عمل کرنا ہے، خصوصی کثیرالفریقی ضوابط پر۔ دنیا ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، جہاں کوئی ضابطہ نہیں۔ چین ضوابط کا احترام کرتا ہے، بہ شمول ڈبلیو ٹی او کے ضوابط کے۔‘
گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے سے متعلق اعلان کیا تھا۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دورِ حکومت کے اختتام پر طے پانے والے اس معاہدے کے تحت تیزی سے بڑھتے ہوئے زمینی درجہ حرارت کی روک تھام پر چین اور امریکا سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اتفاق کیا تھا اور اس معاہدے کو انتہائی اہم اور تاریخی قرار دیا گیا تھا۔
جمعرات یکم جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر اس معاہدے سے امریکا کے نکلنے کا اعلان کیا تھا کہ اس سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، جب کہ انہوں نے اس بات پر بھی شک کا اظہار کیا تھا کہ پیرس معاہدے سے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو روکا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا 195 ممالک کے متفقہ پیرس ماحولیاتی معاہدے پر عمل درآمد فوری طور پر روک رہا ہے۔
ان کے اس اعلان پر دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جب کہ ناقد حلقوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ساتھ امریکا نے دنیا میں اپنے قائدانہ کردار پر بھی کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔