تحریر: میر افسرامان کالمسٹ پیرس حملہ پر مسلمانوں نے کھل کر مذمت کی اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے آج کے دور میں ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے دشمن مغرب کے پاس ہیں جوسچ کو چھپاتے ہیں اورجھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیںاسی وجہ سے عام مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے ۔ وہ کون سا جھوٹ اپنے مقاصد کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔عالمی ابلاغ کے ذریعے ہمیں پتہ چلاکہ داش میدان جنگ میں اُتر آئی ہے اور عراق فوج پرتابڑتوڑ حملے کے بعد عراقی فوج شکست کھا کر بھاگ گئی ہے اور بھاری امریکی اسلحے کے ڈھیرداش کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔داش کے پاس جدید اسلحہ ہے اُس نے عراق اور شام کے درمیان کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔تیل کے کنوایں اس کے قبضے میں آگئے ہیں اس کے پاس دولت کے خزانے ہیں۔
کسی بغدادی نے خلافت کی بنیاد ڈال دی ہے اپنے آپ کو مسلمانوں کا امیر المومنین ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ جو بھی اس کی خلافت کا انکاری ہے ان کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ انبیاء کی قبروں کو بمبوں سے اڑا دیا ہے۔اصحاب کے مزاروں کو بھی مسمار کر دیا ہے۔داش مسجدوں پر خود کش حملے کر کے نمازیوں کو شہید کر رہی ہے۔آج یمن میں مسجد پر خود کش حملہ ہوا تو کل پیرس میں اس کے خود کش بمباروں نے چھ جگہ خود حملہ کر کے ڈیڑھ سو سے زائد فرانس کے شہریوں کو ہلاک کر دیاہے وغیرہ وغیرہ۔ نو گیارہ کے من گھڑت واقعہ کے بعد مغربی میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گرد،انتہا پسند اور تنگ نظر ثابت کرنے کی بھرپور مہم چلا کر دنیا کے ایک بڑے حصے کو گمراہ کر دیا ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں رہی بلکہ مسلمانوں میں ہی سے کچھ بدراہو ںکو وحشی بنا کر ایسی حرکتیں کرائی گئیں جو انسانیت کے چہرے پر سیاہ داغ ہیں۔
بازاروں، عبادت گاہوں ،مزاروں، لڑکیوں کے اسکولوں عوامی اجتماع کے جگہوں پرخود کش حملے کر کے اوربے گناہ لوگوں کو قتل کر کے اسلام کو بدنام کیا گیا۔ جس کی مثال پاکستانی طلبان کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ۔ یہ سب خبریں اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بنتیں ہیں اورعوام کو ان خبروں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کوبعض زندہ ضمیر انصاف پسند مغرب کے دانشور بھی بیان کرتے رہتے ہیں جن کوسامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔انسان جب وحشی بن جائے تو اس میں نام نہادتہذیب یافتہ (مغربی)اور دہشت گرد (اسلامی)کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے مذموم مقصد کے لیے مغربی اور دوسرے ممالک یہ وحشیانی حرکات پہلے سے کرتے آئے ہیں۔
USA
آج ہی کے اخبارت میں کچھ کھوج لگانے والے تجزیوں کاروں کی نگارشات کو سامنے رکھا جائے اور بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں یا مغرب؟ ایک امریکی انسانیت اور انصاف پسند دانشور اور سیاسیات کے ماہر پروفیسر چوبیس سے زائد کتابوں کا مصنف ہے نے ،نو گیارہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف کی جنگوں کا مشاہدہ کیا اور سچ کی گواہی دیتے ہوئے امریکہ کے حکمرانوں کوللکارا کہ”تم کیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کر سکتے ہو،جب کہ جنگ بجائے خود دہشت گردی ہے” ۔اس طرح کے خیالات ایک اور برطانوی انصاف پسند سیاست دان ٹونی بین کے بھی ہیں جو دہشت گردی کے خلاف مشاہدہ کرتا رہا ہے ۔جو سینتالیس سال برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہاہے کہتاہے”امریکی بمبار اور خود کش بمبارکے درمیان کوئی اخلاقی فرق نہیں، دونوں معصوم لوگوں کاسیاسی وجوہات کی بناء پر قتل کرتے ہیں”۔
اس خیالات کو اگرہم اپنے تناظرمیں سمجھیں تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ،کہ جھوٹی تحقیق کہ، عراق کے پاس ماس ڈیکٹرکشن کے ہتھیار ہیں جس کی معافی ٹونی بلیئر نے بھی مانگی ہے، عراق میں پانچ لاکھ بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک کر دیے جائیں اور دس لاکھ عراقیوں شہریوں کو ناٹو افواج ہلاک کر دیں۔ افغانی طالبان جنہوں نے دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی نہیں کی تھی،صرف اسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان ناٹو فوجیںچڑھ دوڑیں۔ڈیزی کٹڑ بموں کی بارش کر کے پورے افغانستان کو تورا بورا بنا دیں۔ فلسطین میںغزا کی ناکہ بندی کر کے لاکھوں لوگوں کے ساتھ انسانیت کش سلوک کریں اور نہتے فلسطینیوں پر جنگ کے ذریعے معصوم بچوں کے بے گناہ فلسطینیوں کوشہید کر دیں۔ کشمیر کی جد وجہد آزدای میں اب تک پانچ لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں میں دس ہزار سے زائد کشمیری عورتوں کی اجتماعی آبروزیزی کی گئی۔
مسلمانوں کی پراپرٹی کو گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیا گیا۔ لاتعداد اجتماہی قبریں بھی دریافت ہوئیں۔ بوسنیا اور برما کے تازہ مظالم ہمارے سامنے ہیں ۔ایک اور مضمون جو خاص کر پیرس فرانس کے دہشت گرد حملہ کی تشریع کرتا ہے کو بیان کرتے ہیںتاکہ مغرب کا وحشی چہرہ بھی آزادانصاف پسند دنیا دیکھ لے۔ایک مشہورامریکی معاشیات اورمتعدد کتابوں کے مصنف پال کریگ رابرنس نے داش کی طرف سے پیرس کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر اپنے مضمون کا عنوان رکھا ہے” ایک اور جھوٹے پرچم تلے پیرس حملہ” پال کریگ رابرنس ١٥ اپریل ٢٠١٣ء کو بوٹس میراتھون بومنگ” کی طرح پیرس کے حالیہ حملوںکو بھی جھوٹے پرچم تلے مغربی ممالک کی کارستانی قرار دیتا ہے۔ پال کے بقول مغربی ممالک اپنے ہی شہریوں کے قتل کی لمبی تاریخ رکھتے ہیں۔جس میں وہ ہر دور کے مشہور کیے گئے دشمنوں سے منسوب کرتے آئے ہیں۔ اس نے اپنی تحریر میں سرد جنگ کے زمانے ”آپریشن کلاڈئیو” نومبر ١٩٥٦ء کے دہشت گردواقعات کو تازہ کر دیا ہے۔
Killing
جس کے تحت سی آئی اے اور الطانوی انٹیلی جنس ادارہ مل کر الطانوی شہریوں کو قتل کرتے تھے۔اور اس قتل کی ذمہ داری یورپ کی کیمونسٹ جماعتوں کے سر ڈالتے تھے۔اس طرح کا واقعہ ١٩٣١ء میںجاپان نے بھی کیا کہ اپنی ہی ریل کی پٹریاں اُکھاڑ کر اس کا لزام چین کے اوپر لگا دیا تاکہ چینی علاقے منچوریا پر اپنا دھاوے کاجواز پیدا کر سکے۔ انٹرنیٹ پر ایسے متعدد واقعات مل سکتے ہیں جو مغرب ہی سے لگا کھاتے ہیں۔ بھارت میںممبئی ہوٹل حملہ بھی اس طرح کی کہانی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے واقعات قطعاً نہیں ہیں۔
ایسے پلائنٹڈ واقعات کو مدر نظر رکھتے ہوئے مغرب کے انصاف پسند اور با ضمیر دانشور پہلا سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ بھی جھوٹے جھنڈے تلے جھوٹا بیان ہے۔ پیرس دہشت گرد حملہ بھی ایسا ہی ہے۔ایسی کاروائیوں کوانگریزی مین بوبی ٹریپ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ قارئین! مکر و فریب کی اس دہشتگردی کو سامنے رکھتے ہو ئے ہم اللہ سے ہی دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کر کے دیکھا دے تاکہ مسلمان موجودہ کرب سے نجات پا سکیں آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسرامان کالمسٹ کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد سی سی ہی