تحریر : راؤ خلیل احمد پیرس ماحولیاتی معاہدہ 2015 سے امریکی صدر ٹرمپ کا فرار ایک عالمی چیلنج کا سامنا کرنے سے دستبردار ہونا امریکہ کی شکست کے مترادف ہے ۔ پیرس معاہدے COP-21 کے تحت امریکہ اور دیگر 187 ممالک کی ذمہ داری تھی کہ وہ عالمی درجہ حرات میں اضافے کو دو ڈگری سے نیچے لائیں گے اور مزید کوششیں کر کہ اس کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پیرس ماحولیاتی معاہدہ 2015 سے نکلنے کا اعلان امریکہ ایک طرف اور ساری دنیا ایک طرف بلا جنگ ،جنگ سے دستبرداری شکست کے زمرے میں آتی ہے۔
آج تک امریکہ سب کا باپ بننے کی کوشش میں مبتلاء تھا اورکسی حد تک یہ رول پلے کرتا آیا تھا مگر ٹرمپ نے ایسے ناخلف بیٹوں کی صف میں لا کھڑاکیا ہے۔ 187 ممالک ایک طرف اور امریکہ اہک طرف ماحولیات میں ایک ڈگری کمی کی بجائے امریکہ کے خلاف دس ڈگری اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جو ایسے دنیا کا تھانیدار بننے کی بجائے منشی بنا دے گا اور وہ سرداری جو اسے روس کے ٹوٹنے کے بعد ملی تھی ٹرمپ انتظامیہ اسے گنوا دے گی۔
عالمی سطح درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ کاربن کا اخراج ہوتا ہے جس میں امریکہ کا خود کا 15 فیصد حصہ ہے۔ یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ امریکہ اور چین ہی کی کاوشوں کے سبب CAP-21 پیرس معاہدے طے پایا تھا۔ اب جب کہ امریکہ نے اس سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے مگر چین نے یورپ کے ساتھ مل کر اس معاہدے پر عمل کرنے کی بات کی ہے۔
امریکہ میں ماحولیات کو سمجھنے والے ایک شخص مائیکل بروئن کا کہنا ہے ’اس معاہدے سے الگ ہو نا ایک تاریخی غلطی ہے۔ وہ اس بات پر بھی کف افسوس ملتے نظر آئے کہ ہماری نسلیں کس طرح اس حققت کو فیس کریں گے کہ ان کا ایک عالمی رہنما کیسے اس قدر اخلاقی قدروں اور حقییقت سے دور ہو سکتا ہے۔’