پیرس خواتین طرز زندگی

Women

Women

تحریر: شاہ بانو میر
ایک عورت کسی مرد کے ساتھ اکیلی بیٹھ کر گپ شپ کر لے تو یہاں معیوب نہیں ہے
بھائی باپ بیٹا ماں دوست احباب اسے عام زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن اگر کہیں ان کے درمیان با حجاب خواتین اکٹھی بیٹھ جائیں تو یہ ہراساں ہو جاتے ہیں۔

نومبر ہوئے واقعات کے بعد حجاب والی خواتین کیلئے مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے شاپنگ مالز ہیں یا عام شاہراہیں ان کیلئے گھبرائی ہوئی نگاہیں اور اور مشکوک انداز میں دیکھتے رہنا عام سی بات بن چکی ہے نظام کی کامیابی کسی نے دیکھنی ہے تو یورپ میں دیکھے خصوصا فرانس میں کہ یہاں دھماکے بعد آگاہی کیلئے شعور کیلئے اور شہریوں کو متحرک محتاط رہنے کیلئے ٹاؤن ہال میں شہری ادارے عام لوگوں کے ساتھ رابطے طڑھا رہے ۔

انہیں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے احتیاطی تدابیر سکھا رہے عام جگہوں پر کیسے کسی مشکوک فرد کو دیکھ کر پہچانا جا سکتا ہے یہ سمجھایا جا رہا ہے
یورپ کا بچہ بچہ نظام کے تحت زندگی گزارتا ہے ان کے اندر اخوت رواداری ہماری طرح رکھ رکھاؤ نہیں ہے رشتے دوست احباب والدین سب کے سب ان کیلیے ملک کے بعد ہیں ۔

European People

European People

کہیں پڑھا تھا کہ یورپین لوگ رشتوں کے بغیر زندہ رہ لیتے ہیں لیکن ماحول کی خوبصورتی جو ان کی پچھلی نسلوں نے محنت کر کے تعمیر کئے ان کے بغیر ان کی زندگی بے معنی ہے انہیں صبح اٹھتے ہی ہریالی سبزہ پارکس ان کے سوئمننگ پولز ان کے کافی بار ان کی شفاف سڑکیں اور رواں دواں خوبصورت ملبوسات میں پیارے لوگ ان کی روح کی طاقت ہیں دنیا بھر سے آنے والے سیاح ھیرت زدہ رہتے ہیں ان کی پرانی عمارات کی دیکھ بھال دیکھ کر کس طرح جدید کے ساتھ قدیم اثاثوں کو ان کی ممکنہ قدرو منزلت کے ساتھ سنبھال رکھا ہے۔

عام یورپین فرانسیسی شہری کا یہی اصل فخر ہے کہ شانزے لیزے جیسی شاہراہ اس جیسی خوبصورتی کہیں نہیں ملتی ایک ایک منظر ان کے شہری کی روحانی اور مادی طاقت ہپے جس کے بغیر اس کی زندگی کا رعب اس کی وناخت پھیکی ہے اسی کو کامیاب نظام کہتے ہیں یہ پرانے وقتوں سے اب تک سچی محنت کر رہے ہیں کہ حقیقی محنت سچے جزبے اور سوچ کی طاقت شاہکار تخلیق کرے سہاروں پے مصنوعی کارکردگی اور پیسے پر مبنی جعلی ترقی حاصل نہیں کرتے ورنہ بکنا بہت آسان ہو جاتا ہے جیسا کہ ہم پاکستان کے نظام میں دیکھ رہے ہیں۔

تمام شعبوں کو ڈاکٹر سے لے کر ایک بھنگی تک اس قدر معزز انداز دیا گیا کہ کوئی بھی اپنی تعلیمی استعداد کے مطابق شرمندہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کام کر رہا ہے شعبوں کی کامیابی اداروں کا مضبوط قیام ہے پاکستان کو اور اس کے شہریوں کو پیرس بم دھماکے سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے سب سے پہلے فولادی عزم کہ ہم نے اپنے ملک پر دن رات ایک کیا ہے کسی تخریب کار کو کیسے اجازت دیں کہ اس محفوظ اور مضبوط نظام کو تباہ کر کے ہماری بے فکری لاپروائی چھینے؟

Pakistan

Pakistan

ہر گز ایسا نہیں کرنے دیں گے یہ سوچ کسی نے ان کے دماغوں نے پبلسٹی سے نہیں ڈالی بلکہ بچے سے لے کر بوڑھے تک نے جو جو اپنی محنت اپنی قابلیت اس ملک کو ودیعت کی ہے وہ جنت بے نظیر ملک کی وجود میں شامل محبت کہہ رہی ہے اخلاص مومن کی میراث تھا جو آج ہمیں اہل یورپ میں دکھائی دیتا ہے یہی اخلاص اگرآج بھی پاکستان کے حوالے سے عوام الناس میں پیدا ہو جائے اور ہمارے سیاستدانوں کو کمیٹیوں کے اجراء کی فکر نہ ہو بلکہ اپنی ذات کی ناکامی کو کارکردگی کی ناکامی مان کرازخود دوسروں کیلئے راستہ چھوڑ دیں تو آج بھی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے یہاں جو ایک بار دھونس دھاندلی سے آگے آجائے وہی براجمان رہنا چاہتا ہے کرسی پر بے شک ملک کا بیڑہ غرق ہو جائے کسی اور کو آگے آنے دیں خود استاد بن جائیں
مثبت ترو تازہ خیال امید اورعمل دکھائی دے اس بوسیدہ نیم مردہ باسی سیاست میں۔

نہ کہ در در کے بھکاری بن کر بھیک کی صورت صرف اپنے لئے کشکول پھیلاتے رہنا عجیب دکھائی دیتا ہے بادی النظر میں پیرس میں دھماکوں کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اور اپنے نظام کو بچانے کیلئے حکومت کے سخت اقدامات میں سے ایک قدم حجاب پر شدید تحفظات ہیں حکومت فرانس اپنی جگہہ حق بجانب ہے ہر مشتبہ چیزکو وہ ملک کے تحفظ پرضرور ختم کرنے کی کوشش کریں گے مگراس وقت پاکستانی کموینٹی کے سنجیدہ اورمقتدرحلقوں کو چاہیے کہ وہ خواتین جو حجاب کرتی ہیں ان کیلئے کوئی ایسی ورکشاپس بنائی جائیں جہاں علمائے اکرام سے مشاورت کے بعد انہیں مثبت اور معتدل راستہ بتایا جائے پیرس میں قیام پزیر اسلامی سوچ رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد شدید پریشان ہیں۔

حجاب ایک سوچ نہیں ہے بلکہ عمل ہے جو بہت عرصے کی تعلیم اور سوچ کے بعد ذات کا حصہ بنتا ہے اسے ایکدم یوں اپنی ذات سے الگ کردینا بہت اذیت ناک ہے
امید ہے اس نقطہ پر غور کیا جائے گا اور دینی مدارس اس کے حل کیلئے کوئی عملی قدم اتھائیں گے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر