تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم ہفتہ 14 نومبر 2015 کو دنیا کے سخت ترین سیکیورٹی والے ملک فرانس کے دارالحکومت خوشبووں کے شہر پیرس میں دہشت گردی کا جس طرح کا واقعہ رونما ہوا اِس میں شک نہیں کہ آج سانحہ پیرس نے امریکا سمیت دنیا کے ہر سیکیورٹی والے ملک کی سیکیورٹی پر بھی کئی سوالیہ نشانات لگا دیئے ہیں آج دنیا کا کونساایسا ملک ہو گا جس نے سانحہ نائن الیون کے بعد اپنی سیکیورٹی کے انتظامات اور اقدامات پر اپنے سالانہ بجٹ سے بڑی رقم مختص نہ کر رکھی ہو مگر آج فرانس میں پیش آئے سانحہ پیرس نے دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر یورپی ممالک اور اسلامی ریاستوں کو اپنی اپنی سیکیورٹی کے ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ آنے والے دِنوں ہفتوں مہینوں اور سالوں میں کسی بھی دہشت گرد گروپ کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی سے محفوظ رہا جائے۔
اِسی طرح دنیا کے موجودہ حالات میں دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے اور اِن کی مالی معاونت کرنے والے دنیا کے ممالک کو بھی یہ سوچنے اور سمجھنے پر صریحاََ مجبورکردیاہے کہ اَب جس قدر جلد ممکن ہوسکے دنیا میں کسی بھی ملک اور ریاست میں کسی بھی نام سے موجود دہشت گرد عناصر اوردہشت گرد گروپس کا وہیں خاتمہ کردیاجائے اور اِن کی پیش قدمی وہیں روکی جائیں اور دہشت گرد گروپس جہاں کہیں بھی موجود ہیں اِنہیں اور اِن کی نسلیں زمین پر پھیلنے سے پہلے ہی ختم کردی جائیں چاہئے اِس کے لئے دنیا کی تیسری عالمی جنگ کی بھی نوبت آئے تو اِس سے بھی دریغ نہ کیا جائے یعنی کہ آج کسی بھی طرح اور کسی بھی مُلک اور ریاست کی جانب سے نہتے اور معصوم اِنسانوں پر کئی جانے والی دہشت گردی سے متاثرہ ممالک اور ریاستیں آہستہ آہستہ انتقام لینے کے لئے کمر بستہ ہورہیں ہیں اور اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لئے اُس حد تک بھی جانے سے دریغ نہیں کر رہی ہیں۔
جہاں اِنسانیت بھی تھرراجاتی ہے یہاں دنیا کے مغربی اور مشرقی ممالک کے لئے ایک قابلِ غوراور تو جہ طلب نکتہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دِنوں فرانس کے شہر پیرس میں جو ہوااگرہم اِسے بھی کسی زمانے کے مظلوموں کے بدلے سے نتھی کردیں تواِس میں ہمیں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ تو مکافاتِ عمل ہے جیساتم کروگے ویساتمہارے ساتھ بھی ہوگا۔مگر یہاں اتنا ضرور ہے کہ دنیا اور بالخصوص یورپی ممالک کو یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑالینی چاہئے کہ جس طرح سانحہ نائن الیون کے ذمہ دار طالبان ہیں یکد م آج اِسی طرح فرانس کے دارالحکومت خوشبوو ¿ں کے شہر پیرس میں دہشت گردی کے پیش آئے سانحہ میںداعش ملوث ہے تو ایسے میں دنیا کو ترنت داعش پر الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا۔
Terror Attacks in Paris
اِس طرح حالات درست سمت میںجانے کے بجائے اُس جانب جا نکلیں گے جہاں دنیا بالخصوص یورپی ممالک کو اتحادی کی صورت میں کسی داعش کے فین اور نشونما کرنے والے ملک پر حملے کرکے اِسے کھنڈربنانے کے بعد بھی کچھ بھی حاصل نہ ہواور داعش اپنی مظلومیت کا رونما روروکر دنیا کی ہمدرردیاں حاصل کریں اور اپناناسور دنیا کے دوسرے ممالک میں اِسی طرح پھیلائیں جس طرح آج طالبان ساری دنیا میں کینسر جیسے موضی مرض کی طرح پھیل گئے ہیں آج دنیا اِن کے خلاف جتنی بھی قوت سے آپریشن کررہی ہے طالبان ساری دنیا میںپھیلتے ہی جارہے ہیں خدشہ ہے کہ کہیں سانحہ پیرس کا بدلہ داعش سے لینے کے چکر میں پڑکر دنیا داعش کو بھی مضبوط کرنے کا ذریعہ نہ بن جائے۔
آج دنیا جہاں داعش کے خلاف محاذ کھولنے کو ہے تو وہیں میرا دنیا کو ایک مشورہ یہ ہے کہ اگر مناسب ہو تو یورپی ممالک ایک نظر اسرائیل سے اپنی دوستی اور دُشمن پر بھی ضرور ڈال لیں جو اِن کا دوست بن کر خود اِن کے اپنے وجود کے لئے بھی سب سے بڑاخطرہ بن گیاہے یورپی ممالک اور بالخصوس فرانس سانحہ نائن الیون اور سانحہ پیرس فورٹین الیون میں ملوث اصل مجرم(اسرائیل ) کے قول و کردار کا بھی ایک جائزہ ضرور لے لیں پھرکسی کے خلاف کچھ کریں تو بہت اچھاہوگاکیوںکہ امریکا نے بھی نائن الیون کے سانحہ میں طالبان کو ملوث کرکے اسرائیل کو بچالیاتھا اور آج اِسی طرح ایک بار پھرفرانس اور یورپی ممالک اسرائیل کو چھوڑ کر داعش کے چکر میں ایک ایسا محاذ کھول لیں گے جس سے دنیا ایک بار پھرواضح طور پر دوبلاکس میں تقسیم ہو کرجائے گی اور فرانس کے واقعہ کا ماسٹر مائنڈاسرائیل پھر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گااور یہی اسرائیل ہمیشہ کی طرح بچ کرپھر کوئی ایسی تیسری کارروائی کردے گا جس سے دنیا یقینی طور پر تیسری عالمی جنگ میں خود کو جھونک ڈالے گی اور اسرائیل اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان کی طرح داعش کے شدت پسندبھی (سوائے اپنی جنم کی ریاست عراق کے) دنیا کی تمام مسلم ریاستوں اور ممالک کے لئے ناسور کی شکل اختیار کرچکے ہیں آج اگر اِنہیں دنیا میں پھیلنے اور آہستہ اور تیز رفتاری سے آگے بڑھنے سے روک کر انہیںجلد ختم نہ کیا گیا تو یہ کینسر نما شدت پسند دہشت گرد دنیا میں اپنی دہشت گردی سے بلارنگ و نسل مذہب و ملت معصوم اور نہتے اِنسانوں کے خون کی ندی بہاتے رہیں گے اور دنیا کے امن پسند لوگ اِ ن شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر آغوش قبر میں جاتے رہیں گے اور داعش کے دہشت گرد اِنسانی سینوں پر دندناتے پھریں گے اور دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جدیدحفاظتی آلات سے آراستہ ہونے کے باوجود بھی دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے سے نہ بچ سکیں گے اور آہستہ آہستہ دنیا داعش اور طالبان اور اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے کھنڈر بنتی جائے گی۔
ISIS
گزشتہ دِنوں دنیا نے دیکھا کہ فرانس کے دارالحکومت اور خوشبوو ¿ں کے شہر پیرس میں دہشت گردوں نے کس طرح اپنی دہشت گردی کا مظاہر ہ کیا کے فرانس کی ساری کی ساری سیکیورٹی اور اِس کے دارالحکومت خوشبوو ¿ں کے شہر کے نام سے دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھنے والے پیرس کی زمین کا زرہ زرہ اِنسانی خون سے تر ہوااور کیسے ساراپیرس اِنسانی خون کی بو سے پیداہونے والی پراسرایت سے ہولناکی کا منظرپیش کررہاتھا یقینا یہ سانحہ فرانس اور پیرس والوں کے لئے ایک قیامتِ صغریٰ کا لمحہ تھا۔
جب دنیا کے سخت ترین سیکیورٹی والے ملک فرانس اور اِس کے دارالحکومت پیرس جیسے جدیداور حفاظتی شہر میں ایک ہی دن میں ایک دو نہیں بلکہ کنسرٹ ہال ، فٹ بال اسٹیڈیم، پیزاسینٹر، جاپانی ہوٹل، کمبوڈیا کے ریسٹورنٹ سمیت چھ مختلف مقامات پر مسلح دہشت گردوں نے اپنی بے رحمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں سے 170سے زائد افراد کو ہلاک اور 300کے لگ بھگ زحمی افراد کے خون سے جس طرح سے خون کی ہولی کھیلی اِس واقعہ سے دنیا کو سانحہ نائن الیون یاد آگیااور دنیا ششسدر رہ گئی کہ دہشت گردوں نے دنیا کے سخت ترین سیکیورٹی والے مُلک فرانس اوراِس کے دارالحکومت پیرس کو بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے نہ بخشااور فرانس کو بھی اِس کے معصوم شہریو ں کے خون سے نہلادیاآج جِسے دنیا فرانس کے سانحہ کو 9/11(نائن الیون )کے طرز کا سانحہ 14/11 (فورٹین الیون ) قرار دے رہی ہے فرانس میں تین روزہ سوگ کا اعلان ہے اور اِن دنوں فرانس سے اظہاریکجہتی کے لئے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں شمعیں روشن کی جارہی ہیں اور فرانس میں سانحہ پیرس میں ملوث عناصر سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور فرانس کے سیکیورٹی کے ادارے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ سارے فرانس میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔
بہرحال ….!! فرانس میں جو کچھ ہواآج اِس سے جہاں اور بہت سے سوالات اور نکات جنم لے رہے ہیں تو وہیں یہ دو ایسے بہت اہم نکات اور سوالات ہیں اگر جن پرفرانس والے غور کریں تو اِنہیں دہشت گردوں تک پہنچنے میں بہت آسانی ہوجائے گی ایک تونکتہ یہ ہے کہ ”کہیں ایساتو نہیں ہے کہ اَب تک امریکی اتحادی بن کر فرانس نے جن ممالک کے خلاف فوجی کارروائیاں کی ہیں اِن کے شدت پسندوں کی کارروائی تو نہیں ہے۔۔۔؟” اور دوسرابڑااہم سوال اور نکتہ یہ ہے کہ ‘ فرانس میں جو کچھ ہواکہیں اِس کے پسِ پردہ وہ مُلک (اسرائیل) یا دیگر ممالک تو نہیں ہیں جو فرانس میں اِس قسم کی کارروائیاں کرکے فرانس کی سالمیت کو خطرے میں ڈال کر اِس سے کوئی بڑاکام لینا چاہ رہے ہوں اور وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ جس طرح نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اِن کی معیشت کا ستیاناس ہو گیا ہے۔
اِسی طرح فرانس کی معیشت اور استحکام بھی داو پر لگ جائے اور وہ اِس قسم کی دہشت گردی سے مقابلہ کرتے اور نبرد آزماہوتے ہوتے اپنا سب کچھ خود ہی تباہ و برباد کرڈالے ” ایسا لگتا ہے کہ فرانس کے شہر پیرس میں جو کچھ ہواہے اِس کے پیچھے فرانس کے اسرائیل نما دوست ممالک کا بھی ہاتھ ہے اب اِن باتو ں کو سمجھنا فرانسیسیوں اور پیرس والوں کا کام ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی اِس ہولناک سازش کو سمجھیں اور اِس سازش کے پسِ پردہ عناصر کو حقیقی معنوں میں دنیا کے سامنے لائیں تاکہ سانحہ پیرس میں ملوث عناصر کا اصل چہر ہ دنیا کے سامنے آئے۔