تحریر : جمشید علی ایک وقت تھا جب لوگ پیدل سفر کرتے تھے اور ایک آج کا دور ہے جہاں لوگ چند قدم پیدل چلنابھی زندگی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ آج کے دور میں انسان کے پاس آمدورفت کے لیے بہترین چیزیں موجود ہیں جو کہ پچھلے دور میں موجود نہیں تھی۔ آج اگر کسی انسان کو چندمیٹر کا فاصلہ بھی طے کرنا پڑے تو وہ موٹرسائیکل کوترجیح دیتا ہے نہ کہ پیدل چلنے کو اور یہی وجہ ہے کہ انسان نے اپنی ضروریات زندگی کی خاطرآمدورفت کی بہترین سہولیات متعارف کرائی ہیںجو اس کے لیے آرام دہ اور سکون کا باعث بنتی ہیں۔
موجودہ دور کی بات کی جائے تو اس وقت انسان کے پاس آمدورفت کیے لیے بہترین چیزیں موجود ہیں جن مین ہوائی جہاز’ ریل گاڑی’کار اور موٹر سائیکل اور دوسری چیزیں موجود ہیں جن کو استعمال کر انسان پرلطف سفر کا مزہ اٹھا سکتا ہے۔ایک طرف تو ان تمام چیزوں کے بہت سے فوائد ہیں لیکن دوسری طرف کبھی کبھی یہی چیزیں انسان کے لیے کسی وبال جان سے کم نہیں ہیں۔
آج کے دور میں جہاں یہ گاڑیاں بے پناہ فوائد کی حامل ہیں وہی ان کے بہت سے مسائل بھی ہیں جن میں ایک پارکنگ کا مسئلہ ہے۔ پارکنگ کا مسئلہ دن بدن انتہائی سنگین مسئلہ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آج اگر آپ سڑک یا کسی بازار میں نظر ڈالیں تواتنی تعداد میں لوگ نظر نہیں آئیں گے جتنی تعداد میں گاڑیاں نظر آئیں گی۔پارکنگ کا مسئلہ انتظامیہ اور پارکنگ معافیہ کی ملی بھگت کی نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شہر کے ہر ہسپتال ‘ پلازے’ سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر کے باہر پارکنگ سٹینڈ نظر آئیں گے جو کے پارکنگ معافیہ کی ضمانت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پارکنگ اسٹینڈ کا اجازت نامہ ضلعی حکوت مختلف ٹھیکیداروں کو جاری کرتی ہے مگر یہ پارکنگ معافیہ ایک ہی اجازت نامہ پر مختلف پارکنگ اسٹنڈ پر قبضہ بنائے رکھے ہوتے ہیں اور عوام سے پیسے بٹورتے رہتے ہیں اور کوئی ان سے اس کے بارے میں پوچھنے والہ نہیں ہے اور اگر کوئی غلطی سے پوچھنے والہ آبھی جائے تو وہ اپنا حصہ لے کر چلتا بنتا ہے۔مگر اس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔
آج اگر ایک غریب انسان گھر سے باہر کام کے لیے نکلتا ہے تو اس کو اپنی گاڑی مختلف جگہ پر پارک کرنی ہوتی ہے اور گاڑی پارک کرنے کے لیے اس کو پارکنگ سٹینڈ معافیہ کو پندرہ یا بیس روپے ادا کرنے ہوتے ہیں چاہے آفس میں کام پانچ منٹ کا ہو یا پانچ دفعہ آنا ہو مگر پیسے ہر دفعہ ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یوں ایک غریب انسان اگر پانچ دفعہ اپنی گاڑی پارک کر ے تو یوں اس کی اپنی دن کی کمائی کا چوتھا حصہ اس پارکنگ اسٹینڈ معافیہ پر لٹانا پڑتا ہے جو کہ اس کے ساتھ انتہائی ظلم ہے۔اور پھر مزے کی بات دیکھیں اسی پرچی کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ موٹرسائیکل گم ہونے کی صورت میں انتظامیہ ذمہ دار نہ ہوگی ۔ اب اس بات پر آپ چاہیں تو حکوت پر قربان جائے یا تو پھر پارکنگ سٹینڈ معافیہ پر مگر یہ ایک کمزور انسان کے ساتھ انتہائی دردناک ظلم ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کا وہ ایسی حکمت علمی بنائے جس سے آدمی ایک ہی پرچی لے اور اسی پرچی سے ایک دن میں مختلف جگہ پر اپنی گاڑی پارک کر سکے۔
ایک طرف تو پارکنگ سٹینڈ سے پارکنگ معافیہ سر گر م ہیں وہی دوسری طرف مناسب حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے پارکنگ کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لے رہیں ہیں۔مناسب پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ اپنی مرضی سے اپنی گاڑی پارک کر سکتا ہے اور کوئی اس کو پوچھنے والہ نہیں ہوتا۔اور مناسب پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف حادثات بھی پیدا ہوتے ہیں اس لیے گاڑی کو مناسب جگہ پارک کرانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہے۔
اس لیے حکوت کو چاہیے کہ وہ پارکنگ کو حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام لیں ورنہ یہ مسئلہ ایک دن انتہائی سنگین شکل اختیار کر لے گا اور پھر اس پر قا بو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔حکومت کو چاہیے کو وہ بے جاپارکنگ سٹینڈ کو ختم کر دے اور صرف ضروری مقامات کے سامنے ہی پارکنگ سٹینڈ بنائے رکھیںاور پارکنگ معافیہ کو پارکنگ کے حوالے سے مناسب جگہ دے تاکہ لوگوں کی گاڑیاں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور ٹریفک جام جیسے بڑے مسئلے سے بھی بچا جا سکے کیونکہ عموما ٹریفک جام ٹریفک کے غلط پارکنگ کی وجہ سے یہ مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہی پیش آتے ہیں ۔ حکومت پارکنگ سٹینڈ کو اپنے سسٹم میں لائے کہ شہر میں کتنے پارکنگ سٹینڈ ہیں اوراجازت نامہ کن پارکنگ سٹینڈوں کو مل چکا ہے اور کونسے پارکنگ سٹینڈ بنا اجازت نامہ کے ساتھ چلائے جا رہیں ہیں اور جو پارکنگ سٹینڈ بنا اجازت نامہ کے ساتھ چل رہیں ہیں ان کو سیل کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے ۔اس سے عو ام کو ریلیف اور حکومتی خزانے کو بھی بے حد فائدہ پہنچے گا۔
حکومت پارکنگ معافیہ کے ساتھ مل کر کوئی حکمت عملی بنائے تاکہ عام آدمی کو ریلیف دیا جا سکے تا کہ وہ ایک ہی پرچی سے اپنی گاڑی شہر کے کسی بھی سٹینڈ پر پارک کر سکے۔غیر مناسب جگہ پر گاڑی پارک کرنے والے کے خلاف مناسب قانون عمل میں لائے جائے اور اگر کوئی قانون موجود ہیں تو اس پرسختی سے عمل درآمد کرایا جائے تا کہ کوئی بھی اپنی گاڑی غیر مناسب یا نو انٹری جگہ پر پارک نہ کرے۔ اگر آج پارکنگ کے مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے نہ سوچا گیا تو آنے والے دنوں میں اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گااور پھر حکومت کے پاس مزمت کے علاوہ کوئی لفظ موجود نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ دور میں جتنا لفظ یہ مزمت استعمال ہور ہا ہے شاید اتنا کبھی استعمال ہوا ہو۔