تمام نعمتوں میں عقل اور سمجھ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان خیرو شر، نیکی اور بدی نیز نفع و نقصان میں فرق کر سکتا ہے۔ عقل کی بدولت ہی انسان اپنی زندگی سنوارتا ہے، تدبر اور غور و فکر سے کام لیتا ہے، عقل ہی کی بنا پر انسانی معاشرے منظم اور موثر طور پر عمل رہتے ہیں، عقل ایک قیمتی جوہرہ ہے، موتی ہے جسے عقل مند حضرات، دانشمند لوگ حفاظت سے رکھتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔
دانشمند انسان عقل کو انہی اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کے لیے وہ عطا کی گئی ہے اگر انسان عقل کھو دے تو وہ حیوانات جیسا تصرف کرنے لگتا ہے اس میں اور حیوانات میں اور نباتات و جمادات میں کوئی فرق نہیں رہتا بلکہ حیوانات بسا اوقات انسان سے بہتر نظر آتے ہیں جو عقل کھو دے اسے کوئی نفع نہیں پہنچتا وہ نفع بخش شمار ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنے اہل و عیال، اپنے کنبے اور اپنے معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے۔ ایسے انسان بھی ہیں جو اپنی عقل سے صحیح کام نہیں لیتے اور اس کی حفاظت نہیں کرتے وہ عقل جو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں، نفس پرستی اور شہوت رسانی ان پر غالب آجاتی ہے۔
یہی رویہ دیگر لوگوں میں اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتے ہیں یا کئی قسم کی منشیات کا استعمال کرتے ہیں ایسی نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں جن سے عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور انسان اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھتا ہے وہ حیوانوں جیسا تصرف اور سلوک کرنے لگتا ہے، مجرم بن جاتا ہے، پاگل بھی ہو جاتا ہے فسق و فجور میں ڈوب جاتا ہے، نشے میں انسان اپنے غم کو بھی بھول جاتا ہے۔
خود اپنے نفس پر بھی اسے قابو نہیں رہتا، وہ اپنے آپ پر بھی ظلم کرتا ہے اس کا ارادہ اور اس کی سمجھ مفلوج ہو جاتی ہے اس کے زندہ رہتے ہوئے اس کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور اس کی زندگی ہی میں اس کی بیوی بیوہ ہو جاتی ہے ایسا انسان زندگی کی پانچ اہم ضروریات بھی ترک کر دیتا ہے وہ نشے میں اپنے مذہبی واجبات بھی ادا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، محروم بھی ہو جاتا ہے جن کی پابندی کی ضرورت تمام مذہبی شریعتوں میں روش رہی ہے یعنی عقل کی ضرورت عبادت ہے جس کے لیے انسان اور جن پیدا کیے گئے اور جب یہ عقل کی ضرورت ہی ناپیدہو تو نشے میں خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے کنبے اور اپنے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اپنے گرد و نواح میں بد امنی اور بدعنوانیاں پھیلاتا ہے اور کنبے پر بوجھ بن جاتا ہے۔
نشہ آور چیزوں کا استعمال ایک انتہائی قبیح عادت ہے یہ اہل جاہلیت کی نشانی ہے۔ قومی اسمبلی میں آزاد رکن جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے ارکان اسمبلی پر کروڑوں روپے کی شراب لانے’ چرس نوشی اور لڑکیاں لانے کا الزام لگاتے ہوئے لاجز میں مقیم تمام ارکان قومی اسمبلی کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کو ایوان میں نکتہ اعتراض پر جمشید دستی نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں ماہوار 4 سے 5 کروڑ روپے کی شراب پی جاتی ہے۔ ہر وقت چرس کی بو پھیلی رہتی ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ لاجز میں مجرا ہوا’ لڑکیاں منگوائی جاتی ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا جائے۔ تحقیقات کرائی جائے کہ پارلیمنٹ لاجز میں شراب کیسے پہنچتی ہے۔ جمشید دستی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ڈسپنسری سے ممبران اسمبلی جنسی قوت بڑھانے کیلئے طاقت کے انجکشن، پرفیوم اور کیپسول لیتے ہیں۔ ڈاکٹرز اور ڈسپنسرز اس میں ملوث ہیں میرے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز اور سویٹ ہوم میں چرس کی بدبو آتی ہے اور غلاظت پر مبنی کھیل کھیلا جا رہا ہے اس پر (ن) لیگ کے حکام کیوں خاموش ہیں۔ پورا دن نوجوان دوشیزائیں پارلیمنٹ میں گھومتی ہے اور بعض لڑکیوں کی حالت برہنہ ہوتی ہے،
وہ نشے کی حالت میں ہوتی ہیں اور پولیس اہلکار انہیں پکڑ پکڑ کر زبردستی ایم این ایز کے کمرے میں لے کر جاتی ہیں۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ لاجز میں ناپسندیدہ سرگرمیوں کے شواہد مانگ لئے۔ حکومتی ارکان نے جمشید دستی کے بیان پر احتجاج کرتے ہوئے اسے کارروائی سے حذف کرنے کی استدعا کی لیکن سپیکر نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ کی فوٹیج موجود ہے، جمشید دستی ثبوت دیں اگر ان کے الزامات درست نکلے تو چاہے ان کی اپنی کی جماعت کے ارکان کیوں نہ ملوث ہوں کارروائی ضرور کی جائیگی اور اگر یہ الزامات جھوٹے نکلے تو جمشید دستی کی سزا کا فیصلہ ایوان کریگا۔ متعدد ارکان پارلیمنٹ نے جمشید دستی کی جانب سے عائد کئے گئے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے سپیکر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کی فوری تحقیقات کرائیں اور اس میں ملوث ارکان کیخلاف کارروائی عمل میں لا کر ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے جو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹرین کی توہین کا باعث بنتے ہیں، فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔سینیٹر طلحہ محمود، نبیل گبول، رشید گوڈیل اور شاہی سید سمیت دیگر ارکان پارلیمنٹ نے جمشید دستی کے ان الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز رہنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ یہاں پر ایسی سرگرمیاں ہورہی ہیں جو انتہائی غیر اخلاقی ہیں۔ نبیل گبول کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسی وجہ سے وہاں سے اپنی رہائش تبدیل کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔
Parliament
انہوں نے کہا کہ متعدد بار پارلیمنٹ لاجز میں غیر متعلقہ افراد کو دیکھا گیا جن میں نوجوان خواتین بھی شامل تھیں ان کے اراکین پارلیمنٹ سے مراسم ہیں اس لئے ایسے اراکین کیخلاف کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے ایک غلط تاثر جاتا ہے۔ اعجاز الحق کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایسی حرکتیں ان لوگوں کو نہیں کرنی چاہئیں جن پر عوام نے اعتماد کیا ہے اگر ایسی حرکتیں کرتے ہیں تو ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے بھی جمشید دستی کے الزامات کی تصدیق کی اور سپیکر سے اس کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ شاہی سید اور رشید گوڈیل کا بھی کہنا تھا کہ جب عوامی نمائندوں کا یہ حال ہوگا تو عوام کا اس پر کیا اثر پڑے گا نمائندوں نے پارلیمنٹ جیسے فورم کو بھی داغدار کیا ہے اس لئے ایسے اراکین پارلیمنٹ جو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جمشید دستی ان کے بارے میں ثبوت فراہم کریں تاکہ ان کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔اسلام سے قبل شراب ایک عام مشروب تھا لوگ اس کے عادی تھے پھر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شراب پینے کو بْرا سمجھتے ہوئے شراب نوشی نہیں کرتے تھے۔
مدینہ منورہ کو ہجرت کر جانے کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شراب نوشی نہ کرنے والوں کا ایک وفد شراب نوشی کی ممانعت کی سفارش کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اْس کے کچھ عرصہ بعد آیت اْتری جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”ترجمہ۔ آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیاوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو”مسلمانوں میں سے کئی نے بڑا گناہ قرار دیئے جانے کے بعد شراب نوشی ترک کر دی۔
چونکہ کھْلے الفاظ میں شراب نوشی کی ممانعت نہ کی گئی تھی اسلئے کچھ مسلمان شراب نوشی کرتے رہے اور نشہ میں مسجد جانے کے واقعات ہوئے۔ بعد میں غالباً 4 ہجری کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت اْتری۔ترجمہ۔ اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو”مندرجہ بالا حْکم کے نتیجہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے شراب نوشی ترک کر دی لیکن کچھ اس طرح اوقات بدل کر شراب نوشی کرتے رہے تا کہ نماز کے وقت تک نشہ ختم ہو جائے۔
کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی کو شراب سخت ناپسند ہے۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حْرمت کا حْکم آجائے لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدت بعد مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی (ترجمہ۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جْوا اور عبادت کے لئے نصب کئے گئے بْت اور قسمت معلوم کرنے کے لئے فال کے تیر سب ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے کلیتاً پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ)۔اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں چنانچہ اْسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔
بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے۔کچھ نے پوچھا کہ ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حْکم دیا کہ اسے بہا دو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا دوا کے طور پر استعمال کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روائت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لیجانے والے پر اور اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کر لیجائی گئی ہو”۔جمشید دستی کے انکشاف پرملک بھر کے عوام میں سخت غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے،آج عوام یہ بات سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ ہم نے اراکین اسمبلی کو اس بات کے لئے ووٹ دیئے تھے کہ وہ اسمبلی میں جا کر موج مستی کریں،عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے رب کے احکامات کی نافرمانی کریں ؟اگر جمشید دستی کے اکشافات سچ ہیں توایسے اراکین اسمبلی جو اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں اسلامی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
انہوں نے نہ صرف احکام خداوندی کو چیلنج کیا بلکہ وطن عزیز کی باوقار،آزاد پارلیمنٹ،آئین کی بھی توہین کی۔ اب قوم اس بات کا مطالبہ کر رہی ہے کہ تحقیقات ہونی چاہیں اور جو اراکین اس کام میں ملوث ہیں انکے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔
آئین پاکستان کی شق 62 میں قومی اسمبلی کے رکن کی نا اہلیت درج ہے ۔”62 :کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر (د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو (ر) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو”وہ اراکین اسمبلی جن پر تحقیقات کے بعد ثابت ہو جاتا ہے وہ اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹروں کی ترجمانی بھی کھو چکے ہیں چونکہ انہیں رائے دہندگان نے بحیثیت مسلم نمائندہ کے ووٹ دیئے تھے لیکن وہ اپنے نئے مؤقف کی بدولت اسلام اور آئین پاکستان کی رو سے اپنے منصب پر براجمان رہنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن ان کی رکنیت منسوخ کرے۔